گیارہ اگست کو پروگرام ’کچھ تو کہیئے‘ میں ہمارے مہمان تھے معروف مصنف، فصیح احمد خان۔
حالیہ برسوں میں، پاکستان میں ٹیلی ویژن پر کچھ ایسے نئے لکھنے والے سامنے آئے ہیں جِنھوں نے زندگی سے قریب موضوعات کو اپنایا اور ایسے کردار تخلیق کیے جو کسی محدود طبقے کی نہیں، بلکہ پاکستان کی اُس آبادی کی نمائندگی کرتے ہیں جو متوسط اور نچلے طبقے سےتعلق رکھتی ہے۔فصیح احمد خان بھی اُن میں شامل ہیں۔
’برنس روڈ کی نیلوفر‘، Romance of Ranchore Lines، ’چابک‘، ’بہکاوا ‘ یہ سب انسانوں کے اُسی ہجوم کی کہانیاں ہیں۔
پروگرام ’کچھ تو کہیئے‘ میں فصیح نے اپنے کرداروں پر بات کی، اپنے موضوعات کی وضاحت کی اور اُس کراچی شہر کو بار بار یاد کیا جہاں ایک زمانے میں صاف ستھری سڑکوں کے کنارے کتابوں کی دوکانیں تھیں، نرگس کے پھول ملتے تھے، لوگ کسی خوف کے بغیر اِن سڑکوں پر گھومتے تھے، تھیٹر لوگوں سے بھرے ہوتے تھے۔۔۔ وہ کراچی، جو اب کھو گیا ہے۔ لیکن، جس کا کچھ سراغ اب بھی پرانے شہر کی گلیوں اور بوسیدہ عمارتوں میں ملتا ہے۔ اِنہی گلیوں کے اسرار فصیح کا محبوب موضوع ہیں۔
آڈیو رپورٹ سننے کے لیے کلک کیجیئے:
حالیہ برسوں میں، پاکستان میں ٹیلی ویژن پر کچھ ایسے نئے لکھنے والے سامنے آئے ہیں جِنھوں نے زندگی سے قریب موضوعات کو اپنایا اور ایسے کردار تخلیق کیے جو کسی محدود طبقے کی نہیں، بلکہ پاکستان کی اُس آبادی کی نمائندگی کرتے ہیں جو متوسط اور نچلے طبقے سےتعلق رکھتی ہے۔فصیح احمد خان بھی اُن میں شامل ہیں۔
’برنس روڈ کی نیلوفر‘، Romance of Ranchore Lines، ’چابک‘، ’بہکاوا ‘ یہ سب انسانوں کے اُسی ہجوم کی کہانیاں ہیں۔
پروگرام ’کچھ تو کہیئے‘ میں فصیح نے اپنے کرداروں پر بات کی، اپنے موضوعات کی وضاحت کی اور اُس کراچی شہر کو بار بار یاد کیا جہاں ایک زمانے میں صاف ستھری سڑکوں کے کنارے کتابوں کی دوکانیں تھیں، نرگس کے پھول ملتے تھے، لوگ کسی خوف کے بغیر اِن سڑکوں پر گھومتے تھے، تھیٹر لوگوں سے بھرے ہوتے تھے۔۔۔ وہ کراچی، جو اب کھو گیا ہے۔ لیکن، جس کا کچھ سراغ اب بھی پرانے شہر کی گلیوں اور بوسیدہ عمارتوں میں ملتا ہے۔ اِنہی گلیوں کے اسرار فصیح کا محبوب موضوع ہیں۔
آڈیو رپورٹ سننے کے لیے کلک کیجیئے: