گذشتہ دِنوں پاکستان میں ایک کم عمر عیسائی لڑکی، رمشا کو توہین اسلام کے الزام میں حراست میں لیا گیا، جس کے بارے میں ماہرین کا کہنا ہے کہ وہ down syndrome يعني ذہني معذوري ميں مبتلا ہے۔
اس واقعے کے بعد، اس بيماري کےبارے ميں ايک نئي بحث چھڑ گئي ہے اور بہت سے سوالات ذہن ميں جنم لينے لگےہیں۔ عمومی طور پر یہ پوچھا جارہا ہے کہ آخر يہ بيماري ہے کيا ؟ اسکي علامات اور وجوہات کيا ہيں ؟ اور کيا رمشا واقعي’ڈاؤن سنڈروم‘ ميں مبتلا ہے ؟ اور اگر ہے تو اس وقت وہ زير حراست کيوں ہے؟
جب يہ سارے سوالات پاکستان کےايک معروف ماہر نفسيات ڈاکٹر رضوان تاج کے سامنے رکھے گئے تو اُن کا کہنا تھا کہ يہ ايک ايسي بيماري ہے جسکے عوامل جينياتي بھي ہو سکتے ہيں اور موروثي بھي۔’ڈاؤن سنڈروم‘ کي علامات کے بارے ميں انکا کہنا تھا کہ اس بيماري ميں مبتلا بچوں کي خاص قسم کي شکل ہوتي ہے۔ اُن کي آنکھيں، ناک اور کان وغيرہ عام بچوں سے مختلف ہوتے ہيں۔ دماغ چھوٹا ہونے کي وجہ سے ان بچوں کي ذہني عمر کم ہوتي ہےاور يہ نارمل زندگي نہيں گزار سکتے۔ اور اسي وجہ سے وہ ذہني پسماندگي کے شکار بتائے جاتے ہيں۔
آڈیو رپورٹ سننے کے لیے کلک کیجیئے:
اس بيماري کے علاج کے بارے ميں ڈاکٹر رضوان تاج کا کہنا تھا کہ اس بيماري کا کوئي علاج موجود نہيں۔ تاہم، اسکے ثانوي اثرات مثلا غصہ، چڑچڑاپن، ذہني تناو ٴيا بے چيني کا علاج مختلف تھيراپيز کے ذريعے سے کيا جا سکتا ہے۔
ميڈيا ميں آنے والي تصويروں کو سامنے رکھتے ہوئے کيا توہين اسلام کے الزام ميں زيرحراست رمشا نامي مسيحي لڑکي واقعي syndrome down يعني ذہني پسماندگي ميں مبتلا ہے ؟ ڈاکٹر رضوان تاج کا جواب تھا کہ ديکھنے ميں رمشا ڈاؤن سنڈروم کی مريضہ لگتی ہے ، جِس پر کوئي دوسري رائے نہيں ہو سکتي ۔ اُن کا کہنا تھا کہ رمشا سے بڑے بچوں جيسے رويے کي توقع رکھنا زيادتي ہے اور اسے والدين سے دور زيادہ عرصے تک زيرحراست رکھنے سے ، اسکے ذہن پر منفي اثرات پڑ سکتے ہيں اور طبي پيچيدگياں مزيد بڑھ سکتي ہيں۔
ماہر نفسيات کا کہنا تھا کہ وہ کئ اور ماہرين نفسيات سميت پارليمنٹ ميں ايک درخواست پيش کرنے کي تياري کر رہے ہيں، تاکہ ملک ميں ايسے واقعات دوبارہ رونما نہ ہوں اور ذہني امراض ميں مبتلا افراد کو تحفظ فراہم کيا جا سکے۔
ڈاکٹر تاج نہ صرف ان والدين پر جنکے بچے ’ڈاؤن سنڈروم‘ يعني ذہني پسماندگي ميں مبتلا ہوں بلکہ ايسے افراد کے رشتے داروں اور آس پاس کے افراد پر بھي زور ديتے ہيں کہ انکے ذہن کي صلاحيت کو سامنے رکھتے ہوئے ان کےبارے ميں مناسب رويہ اپنائے اور ان سے زيادہ توقعات نہ رکھيں۔
اس واقعے کے بعد، اس بيماري کےبارے ميں ايک نئي بحث چھڑ گئي ہے اور بہت سے سوالات ذہن ميں جنم لينے لگےہیں۔ عمومی طور پر یہ پوچھا جارہا ہے کہ آخر يہ بيماري ہے کيا ؟ اسکي علامات اور وجوہات کيا ہيں ؟ اور کيا رمشا واقعي’ڈاؤن سنڈروم‘ ميں مبتلا ہے ؟ اور اگر ہے تو اس وقت وہ زير حراست کيوں ہے؟
جب يہ سارے سوالات پاکستان کےايک معروف ماہر نفسيات ڈاکٹر رضوان تاج کے سامنے رکھے گئے تو اُن کا کہنا تھا کہ يہ ايک ايسي بيماري ہے جسکے عوامل جينياتي بھي ہو سکتے ہيں اور موروثي بھي۔’ڈاؤن سنڈروم‘ کي علامات کے بارے ميں انکا کہنا تھا کہ اس بيماري ميں مبتلا بچوں کي خاص قسم کي شکل ہوتي ہے۔ اُن کي آنکھيں، ناک اور کان وغيرہ عام بچوں سے مختلف ہوتے ہيں۔ دماغ چھوٹا ہونے کي وجہ سے ان بچوں کي ذہني عمر کم ہوتي ہےاور يہ نارمل زندگي نہيں گزار سکتے۔ اور اسي وجہ سے وہ ذہني پسماندگي کے شکار بتائے جاتے ہيں۔
آڈیو رپورٹ سننے کے لیے کلک کیجیئے:
اس بيماري کے علاج کے بارے ميں ڈاکٹر رضوان تاج کا کہنا تھا کہ اس بيماري کا کوئي علاج موجود نہيں۔ تاہم، اسکے ثانوي اثرات مثلا غصہ، چڑچڑاپن، ذہني تناو ٴيا بے چيني کا علاج مختلف تھيراپيز کے ذريعے سے کيا جا سکتا ہے۔
ميڈيا ميں آنے والي تصويروں کو سامنے رکھتے ہوئے کيا توہين اسلام کے الزام ميں زيرحراست رمشا نامي مسيحي لڑکي واقعي syndrome down يعني ذہني پسماندگي ميں مبتلا ہے ؟ ڈاکٹر رضوان تاج کا جواب تھا کہ ديکھنے ميں رمشا ڈاؤن سنڈروم کی مريضہ لگتی ہے ، جِس پر کوئي دوسري رائے نہيں ہو سکتي ۔ اُن کا کہنا تھا کہ رمشا سے بڑے بچوں جيسے رويے کي توقع رکھنا زيادتي ہے اور اسے والدين سے دور زيادہ عرصے تک زيرحراست رکھنے سے ، اسکے ذہن پر منفي اثرات پڑ سکتے ہيں اور طبي پيچيدگياں مزيد بڑھ سکتي ہيں۔
ماہر نفسيات کا کہنا تھا کہ وہ کئ اور ماہرين نفسيات سميت پارليمنٹ ميں ايک درخواست پيش کرنے کي تياري کر رہے ہيں، تاکہ ملک ميں ايسے واقعات دوبارہ رونما نہ ہوں اور ذہني امراض ميں مبتلا افراد کو تحفظ فراہم کيا جا سکے۔
ڈاکٹر تاج نہ صرف ان والدين پر جنکے بچے ’ڈاؤن سنڈروم‘ يعني ذہني پسماندگي ميں مبتلا ہوں بلکہ ايسے افراد کے رشتے داروں اور آس پاس کے افراد پر بھي زور ديتے ہيں کہ انکے ذہن کي صلاحيت کو سامنے رکھتے ہوئے ان کےبارے ميں مناسب رويہ اپنائے اور ان سے زيادہ توقعات نہ رکھيں۔