کیفیت چشم اس کی مجھے یاد ہے سودا
ساغر کو میرے ہاتھ سے لینا کہ چلا میں
سودا کا ذکر آتے ہی دھیان ’’قصیدہ نگاری ‘‘ کی طرف جاتا ہے اردو قصیدہ نگاری میں جو منفرد اور بلند مقام سودا کو حاصل ہوا وہ کسی اور کے حصے میں نہیں آیا۔ سوداکی طبیت اور مزاج سے یہ صنف گہری مناسبت رکھتی تھی،تمام نقادوں نے ان کی قصیدہ نگاری کو سراہا ہے۔
سودا ایک قادرالکلام شاعر تھے انہوں نے غزل بھی کہی اور اس میں ان کا مقام سطحی اور معمولی نہیں ہے،وہ چونکہ ایک امیر گھرانے سے تعلق رکھتے تھے سو زندگی عیش و طرب میں گزرتی تھی امیروں کی صحبتیں میسر تھیں اس کیے کسی کے عشق جانگداز میں میر کی طرح آنسو نہیں بہائے،ان کے کلام میں سوزوگداز،درد،غم کی گہری ٹیسیں اور خستگی تو نہیں جو میر کی غزلوں کا خاصا ہے اس کے باوجود سودا کی غزل جاندار ہے۔
سودا جو ترا حال ہے اتنا تو نہیں وہ
کیا جانیئے تو نے اسے کس آن میں دیکھا