خیبر پختونخوا حکومت نے ملک میں پہلی باربچوں سے مشقت لینے کی روک تھام کیلئے پالیسی تیارکرنے کا دعویٰ کیا ہے۔
صوبائی حکومت کے محکمہ محنت کے ایک اعلامیہ کے مطابق کمسن بچوں سے مشقت کی روک تھام کی پالیسی میں مرکزی سطح پرایک ایسا نظام قائم کیا جا رہا ہے جو دیگر محکموں کے ساتھ مل کر نہ صرف بچوں سے جبری مشقت کا خاتمہ یقینی بنانے میں مددگار ثابت ہو گا بلکہ اس نظام کے تحت 5 سے لے کر 16 سال تک بچوں کو مفت تعلیم اور فنی تربیت کے ساتھ ساتھ طبی امداد اور علاج معالجہ کی سہولیات بھی فراہم کی جائیں گی۔
بچوں سے مشقت کے خاتمے اور ان کو زیادہ سے زیادہ تعلیمی اور طبی سہولیات کی فراہمی کیلئے اس نظام میں مقامی سطح پر لوگوں کی شرکت کو یقینی بنانا بھی اس پالیسی کا حصہ ہے۔ مقامی سطح پر محنت کرنے والے بچوں کے اعداد و شمار کو اکٹھا کیا جائے گا اور انہی اعداد و شمار کے مطابق محنت کرنے والے بچوں کے حقوق کے تحفظ کو بھی یقینی بنایا جائے گا۔
محنت مزدوری کرنے والے بچوں کے اعداد و شمار کا ریکارڈ محکمہ محنت کے چائلڈ اینڈ بانڈڈ لیبرکے پاس ہو گا۔ محکمہ کے افسران اور اہلکار روزانہ کی بنیاد پر محنت مزدوری کرنے والے بچوں کے بارے میں رپورٹ بنائیں گے اور ان کے حقوق کے تحفظ کیلئے اقدامات اٹھانے کے بارے میں رپورٹ مرتب کریں گے۔
بچوں کے حقوق کے تحفظ کے ایک غیر سرکاری ادارے کے ساتھ وابستہ عمران ٹکر نے وائس آف امریکہ کے ساتھ بات چیت میں کہا کہ دراصل خیبر پختونخوا اسمبلی میں بچوں کے حقوق کے تحفظ کیلئے قانون 2015 میں پاس ہوا تھا مگر صوبائی حکومت اس قانون پر عملدرآمد کیلئے اقدامات اٹھانے میں کامیاب نہ ہو سکی۔
تاہم عمران ٹکر نے بچوں کے حقوق کے تحفظ کیلئے پالیسی کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ کاغذات میں تمام پالیسی اور اقدامات اچھے ہوتے ہیں مگر زمینی حقائق مختلف ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ خیبر پختونخوا میں بچوں کے حقوق کے تحفظ بالخصوص محنت مزدوری کرنے والے بچوں کے تحفظ کیلئے کسی قسم کے اقدامات نہیں ہیں۔
عمران ٹکرنے کہا کہ محکمہ تعلیم خیبر پختونخوا کی ایک حالیہ رپورٹ میں 18 لاکھ بچوں کے تعلیمی اداروں میں اندراج نہ ہونے کی تصدیق کی گئی ہے۔ یہ بچے ان کے بقول یا تو محنت مزدوری کرتے ہیں اور یا سٹریٹ چلڈرن ہیں۔
محنت مزدوری کرنے والے بچوں کے تحفظ کیلئے مرتب کی جانے والی پالیسی میں مقامی آبادی کے علاوہ غیرسرکاری اور فلاحی اداروں کی شرکت کو بھی یقینی بنانے پر زور دیا گیا ہے۔