امریکی ریاست مشی گن میں عرب سمیت دنیا کے مختلف خطوں سے آئے مسلمان خاصی تعداد میں آباد ہیں۔ یہاں رجسٹرڈ مسلمان ووٹرز کی تعداد 270,000 ہے۔ لیکن تین نومبر کو ہونے والے انتخاب کے حوالے سے مسلمان ووٹرز کی ترجیحات بھی یکساں نہیں۔
اگر امریکہ کی مجموعی آبادی کو دیکھا جائے تو مسلمان امریکی اس کا محض ایک فی صد حصہ ہیں۔ لیکن ریاست مشی گن میں ان کا خاصا اثرورسوخ ہے۔
گزشتہ صدارتی انتخابات میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس ریاست میں 45 لاکھ ڈالے گئے ووٹوں میں سے دس ہزار کے فرق سے یہاں کامیابی حاصل کی تھی۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ریاست کے رہائشی ڈاکٹر محمود الحدیدی نے کہا کہ ان کے لیے اس انتخاب میں ووٹ ڈالتے وقت جو بات سب سے مقدم ہو گی وہ ہے احترام۔ وہ کہتے ہیں کہ ان انتخابات میں ایمان دارانہ سوچ، احترام اور مسلمانوں کے کردار کا اعتراف بہت اہمیت رکھتے ہیں۔
ڈاکٹر الحدیدی کا کہنا تھا کہ "مسلم برادری یہ چاہتی ہے کہ اسے عظیم امریکی قوم کی ایک اکائی کی حیثیت سے تسلیم کیا جائے نہ کہ اسے کوئی اجنبی ثقافت سمجھا جائے۔ امریکی مسلمان احترام پر مبنی سلوک چاہتے ہیں۔"
الحدیدی نے 2016 کے الیکشن میں ہلری کلنٹن کی حمایت کی تھی اور وہ ریاست کی ڈیموکریٹک گورنر گریچن ویٹمر کے 2018 کے انتخاب کے بھی حامی رہے۔ لیکن 2020 کے الیکشن میں وہ پورے یقین سے نہیں کہہ سکتے کہ وہ صدر ٹرمپ کے مقابلے میں جو بائیڈن کی حمایت کریں گے یا نہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ اس سے پہلے کہ وہ ذہنی طور پر کسی فیصلے پر پہنچیں وہ چاہیں گے کہ ان کے خدشات کے متعلق کچھ کیا جائے۔
اُنہیں حکومت کے اسکریننگ ڈیٹا بیس پر تحفظات ہیں جس کے تحت ایک فہرست میں شامل مسلمانوں پر نظر رکھی جاتی ہے۔ بہت سے امریکی مسلمان سمجھتے ہیں کہ یہ پروگرام برادری کے معصوم افراد کو نشانہ بناتاہے۔ اس کے تحت ایک نو فلائی لسٹ بھی ہے جس میں ایسے افراد شامل ہیں جنہیں کمرشل پروازوں پر سفر کرنے کی اجازت نہیں ہے۔
الحدیدی کہتے ہیں کہ یقیناً اس فہرست کو تبدیل کرناچاہیے اور ایسے افراد جنہیں غلط طور پر اس میں شامل کیا گیا ہے ان کا نام اس فہرست سے خارج کرنا چاہیے۔ اور ایسا کرنا ایک جائز اور منصفانہ اقدام ہو گا۔
ڈاکٹر الحدیدی چاہتے ہیں کہ کسی امریکی مسلمان کو آنے والی انتظامیہ میں اعلی عہدے پر بھی فائز کیا جائے۔
ریاست کے ایک اور مسلمان اسامہ سبلانی جو کہ عرب امریکن نیوز نامی اخبار کے مدیر ہیں کہتے ہیں کہ لوگوں کو کوئی ایسی بات بتانا ہوگی جو ان میں انتخابات میں حصہ لینے کے حوالے سے گرمجوشی پیدا کرے۔
ذاتی طور پر وہ کہتے ہیں کہ یہ کہنا کہ بائیڈن صدر ٹرمپ سے مختلف ہیں ان کے لیے کوئی ٹھوس وجہ نہیں کہ وہ جائیں اور محض اسی بنا پر اپنے ووٹ کا حق استعمال کریں۔
ان کا کہنا ہے کہ مسلم برادری کے کچھ لوگ اس بات پر یقین رکھ سکتے ہیں کہ صدر ٹرمپ معاشی ترقی اور کاروبار کے حوالے سے اچھے ہیں۔ اور وہ اس بنیاد پر صدر کو ووٹ بھی دے سکتے ہیں۔
لیکن عرب امریکی لوگوں کی اکثریت ڈیموکریٹک امیدوار بائیڈن سے کوئی ایسا وعدہ سننا چاہتے ہیں جو انہیں الیکشن میں حصہ لینے کی طرف راغب کرے۔ کیوں کہ بعض افراد کو گلہ ہے کہ اوباما اور بائیڈن کی گزشتہ انتظامیہ کے دور میں مسلمانوں سے امتیازی سلوک روا رکھا گیا تھا۔
اسامہ کہتے ہیں کہ دہشت گردوں سے متعلق فہرست صدر بش کے دور میں شروع کی گئی۔ تب سے اس میں اضافہ کیا جاتا رہا ہے اور اب یہ مسلم برادری کے لیے پہلے سے کہیں زیادہ تکلیف دہ بن گئی ہے۔
سبلانی نے یہ بھی کہاکہ ٹرمپ انتظامیہ کی طرف سے بعض مسلم ممالک کے مسافروں کی امریکہ آنے پر عائد کردہ پابندی سے امریکی مسلمان نالاں ہیں۔ بائیڈن نے وعدہ کیا ہے کہ وہ اس پابندی کو ختم کر دیں گے۔
ساتھ ہی ساتھ عرب مسلمان صدر ٹرمپ کی جانب سے مشرقِ وسطیٰ میں امن کے قیام اور امریکی افواج کی خطے میں کمی کی کوششوں کوسراہتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ وہ ٹرمپ انتظامیہ سے مسائل پر بات کرنا چاہتے ہیں۔ اور عرب لوگوں کے لیے یہ بات بہت اہم ہے کہ صدر ٹرمپ جنگ کے حامی نہیں ہیں۔
سبلانی کہتے ہیں کہ امریکی مسلمانوں میں کسی ایک امیدوار کا اس الیکشن میں چناؤ کوئی آسان کام نہیں ہے۔
تقریباً پچاس سے ساٹھ فی صد مسلمان بائیڈن کی مہم کے لیے ولولہ نہیں رکھتے جبکہ وہ صدر ٹرمپ کی مہم سے بھی ناخوش ہیں۔
ان خیالات کے برعکس مسلم برادری کے دوسرے لوگ حالات کو مختلف دیکھتے ہیں۔
ڈاکٹر عبدل ال سید جو کہ ڈیٹرائٹ کے شعبہ صحت کے ایگزیکیٹو ڈائریکٹر رہ چکے ہیں کہتے ہیں کہ وہ اپنی برادری پر زور دہے رہے ہیں کہ سیاسی طور پر متحرک رہنے کے لیے ووٹ کا حق استعمال کریں۔
وائس آف امریکہ سے بذریعہ سکائپ گفتگو میں اُن کا کہنا تھا کہ جوں جوں امریکی مسلمانوں کا الیکشن میں ووٹ ڈالنے کا تناسب بڑھے گا یہ سیاست دانوں کو مجبور کر ے گا کہ وہ ووٹ کی خاطر آپ کی طرف رخ کریں گے اور یہ ووٹ فتح اور ناکامی میں فرق بن سکتے ہیں۔
'انسٹی ٹیوٹ فار سوشل پالیسی اینڈ انڈرسٹینڈنگ' کے ایک حالیہ سروے کے مطابق 78 فی صد امریکی مسلمان ووٹر رجسٹرد ہیں۔ اس تناسب میں 2016 سے اب تک 18 فی صد کا اضافہ ہوا ہے۔
ماضی کے سروے ظاہر کرتے ہیں کہ امریکی مسلمان ری پبلکن امیدواروں کے مقابلے میں ڈیموکریٹک امیدواروں کی حمایت کی طرف مائل رہے ہیں۔
دوسری طرف الحدیدی کہتے ہیں کہ تعلیم یافتہ مسلمان الیکشن کا بے تابی سے انتظار کر رہے ہیں۔ ان کے پاس انتخابات میں حصہ لینے کے محرکات بھی ہیں اور اس کے نتائج پر بھی اثرات مرتب ہوں گے۔
ان کے مطابق بہت سے لوگ آزاد سوچ رکھنے والے اور کھلے ذہن کے ووٹر ہیں۔
تمام مسلمان یکساں سوچ نہیں رکھتے۔ اُن کے بقول "ہم اتنے ہی کثیر الخیال ہیں جتنی امریکہ میں بسنے والی دوسری برادریاں ہیں۔"