دوسری عالمی جنگ ختم ہونے کے ساتھ ہی برطانیہ نے ہندوستان سے نکلنے کا فیصلہ کرلیا تھا۔ لیکن مؤرخین آج بھی اس سوال کا جواب تلاش کرنے میں مصروف ہیں کہ سلطنتِ برطانیہ نے اقتدار کی منتقلی اور دو نئے ملکوں - پاکستان اور ہندوستان - کے قیام کے اعلان میں اتنی جلد بازی کیوں کی تھی۔
75 برس قبل تین جون 1947 کو جب وائسرائے ہند لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے کانگریس اور مسلم لیگ کی قیادت کو بتایا کہ تقسیم کے جس منصوبے پر دونوں جماعتوں نے اتفاق کیاہے اس پر دو ماہ کے عرصے میں عمل درآمد کردیا جائے گا، تو یہ اعلان دونوں جماعتوں کے لیے بھی غیر متوقع تھا۔
'تھرڈ جون پلان' یا 'ماؤنٹ بیٹن پلان' کیا تھا اور اس پر عمل درآمد میں اتنی جلد بازی کیوں دکھائی گئی؟ ان سوالات کے جواب تلاش کرنے سے قبل 75 برس پہلے کے وہ سیاسی حالات جاننا ضروری ہے جو اس منصوبے کی بنیاد بنے تھے۔
کانگریس اور مسلم لیگ دونوں 1930 کی دہائی تک یہ سمجھتے تھے کہ ہندوستان کو آسٹریلیا اور کینیڈا کی طرح ڈومینین ہونا چاہیے اور اسی مطالبے پر بات کی جا رہی تھی۔ یعنی داخلی امور پر ہندوستان کو مکمل اختیار ہو لیکن ملک سلطنتِ برطانیہ ہی کا ایک حصہ رہے۔
اس لیے جب سلطنتِ برطانیہ نے اختیارات کو نچلی سطح پر منتقل کرنے کے لیے گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935 متعارف کرایا تو اس میں اس مطالبے کی جھلک بھی نظر آتی تھی۔ اسی ایکٹ کے تحت 37-1936 میں ہندوستان کے 11 صوبوں میں انتخابات منعقد ہوئے۔
ان انتخابات میں کانگریس نے آٹھ صوبوں میں کامیابی حاصل کی جب کہ مسلم لیگ سوائے بنگال اور یوپی کے کسی صوبے میں قابلِ ذکر نشستیں حاصل نہیں کر سکی تھی۔
مؤرخین کا کہنا ہے کہ 1937 کے صوبائی انتخابات میں بڑی کامیابی کے بعد کانگریس نے خود کو ہندوستان کی سب سے بڑی نمائندہ جماعت سمجھنا شروع کر دیا تھا۔
لیکن 1939 میں جب وائسرائے ہند نے مقامی قیادت سے مشاورت کے بغیر دوسری عالمی جنگ میں ہندوستان کے شامل ہونے کا اعلان کیا تو کانگریس نے صوبائی حکومتوں سے استعفے دے دیے اور ایک بار پھر ہندوستان کے آئینی بندوبست کا سوال کھڑا ہو گیا۔
اس بحران کو حل کرنے کے لیے ہندوستان کی مقامی قیادت اور برطانوی حکومت کے درمیان مختلف اوقات میں آئینی امور پر مذاکرات ہوتے رہے۔ 1942 میں کرپس مشن بھی ہندوستان آیا۔ یہ مشن عالمی جنگ میں حمایت کے وعدے پر دستور سازی کے لیے کوئی متفقہ راستہ نکالنے کی خاطر ہندوستان بھیجا گیا تھا۔ لیکن یہ مشن ناکام رہا۔
کرپس مشن کی ناکامی اور عالمی جنگ میں ہونے والے نقصان کے بعد 1943 میں بنگال کے قحط نے برطانیہ کے لیے ہندوستان میں قدم جمائے رکھنا مزید دشوار کردیا تھا۔ اس قحط سالی کا الزام برطانیہ پر بھی عائد کیا جاتا ہے کہ اس نے دوسری عالمی جنگ میں اپنی رسد برقرار رکھنے کے لیے قلت کے باوجود بنگال کو خوراک کی فراہمی کا انتظام نہیں کیا تھا بلکہ سرکاری گوداموں میں موجود اناج کو بھی مقامی آبادی کے لیے استعمال نہیں ہونے دیا تھا۔
ان تنازعات اور مسائل کی وجہ سے برطانیہ کے لیے ہندوستان میں اپنے قدم جمائے رکھنا مشکل ہوتا جا رہا تھا۔ ایسے میں جب 1945 میں دوسری عالمی جنگ کا خاتمہ ہوا تو برطانیہ نے تیزی سے ہندوستان میں اقتدار کی منتقلی پر کام شروع کر دیا۔ اس سلسلے میں وائسرائے ہند لارڈ ویول نے پہلے شملہ کانفرنس بلائی۔ لیکن اس کانفرنس میں بھی کانگریس اور مسلم لیگ کے درمیان ہندوستان میں کسی ممکنہ دستوری انتظام میں نمائندگی کے تناسب کے فارمولے پر اتفاقِ رائے نہیں ہو سکا تھا۔
مؤرخین کے مطابق شملہ کانفرنس کی ناکامی کے بعد یہ بات واضح ہوگئی تھی کہ مسلم اور غیر مسلم آبادی کی نمائندگی کے تناسب کا فیصلہ اب انتخابات ہی سے ممکن ہوگا۔
یونیورسٹی آف کراچی کے پاکستان اسٹڈی سینٹر کے سابق ڈائریکٹر ڈاکٹر سید جعفر احمد کے مطابق برطانیہ نے اس وقت تک فیصلہ کرلیا تھا کہ ہندوستانیوں کی دستور ساز اسمبلی وجود میں آجائے جو خود اپنا آئین بنائے اور نمائندگی کے تناسب کا مسئلہ حل کرے۔
ہندوستان میں 1945 کے موسمِ سرما میں انتخابات ہوئے۔ اس میں پہلے مرکزی اور پھر صوبائی اسمبلی کے انتخابات کا انعقاد ہوا۔
یہ انتخابات جداگانہ بنیادوں پر ہوئے تھے۔ یعنی اس میں مسلمان اکثریتی اور عام انتخابی حلقے الگ الگ تھے۔
ڈاکٹر جعفر احمد کہتے ہیں کہ ان انتخابات نے ہندوستان کی تقسیم کو نمایاں کیا کیوں کہ مسلم حلقوں میں 87 فی صد سے زیادہ ووٹ مسلم لیگ کو پڑا جب کہ عام نشستوں پر 91 فی صد ووٹ کانگریس کو ملا۔ اس نتیجے کے بعد اسمبلی کا اجلاس بڑا مشکل نظر آ رہا تھا کیوں کہ سوال یہ تھا کہ مسلم لیگ اتنی اکثریت کے ساتھ آگئی ہے تو نمائندگی کے تناسب کا سوال تو وہیں کا وہیں رہے گا۔
یہ بحران حل کرنے کے لیے لارڈ ویول برطانیہ گئے اور کوئی حل نکالنے کی کوشش کی۔ اس دوران برطانیہ میں انتخابات ہو چکے تھے۔ جنگِ عظیم دوم جیتنے والے ونسٹن چرچل کو انتخابات میں شکست ہوئی تھی اور لیبر پارٹی اقتدار میں آ چکی تھی جو ہندوستان میں شراکتِ اقتدار کے لیے جلد کسی فیصلے کی خواہاں تھی۔
وائسرائے ہند کی درخواست پر برطانوی وزیر اعظم ایٹلی نے مارچ 1946 میں اپنی کابینہ کے تین وزرا پیتھک لارنس، اسٹیفرڈ کرپس اور اے وی الیگزینڈر کو ہندوستان بھیجا۔ وفد کے ارکان کا تعلق برطانوی کابینہ سے ہونے کی وجہ سے اسے کابینہ مشن کہا گیا۔
برطانوی کابینہ کے یہ اراکین دستور ساز اسمبلی سے مشاورت، آئین کی تیاری اور کسی عبوری حکومت یا انتظامی بندوبست کے لیے ہندوستان آئے تھے۔
کابینہ مشن دہلی آیا اور اس نے مسلم لیگ اور کانگریس کی قیادت سے مشاورت کی۔ اس مشاورتی عمل میں کئی اختلافات سامنے آئے۔ لیکن بالآخر کیبنٹ مشن کے ارکان ایک فارمولے پر متفق ہوئے اور مئی 1946 میں اس مشن نے اپنا منصوبہ مشتہر کر دیا۔
سابق وفاقی وزیر اور مصنف جاوید جبار کے مطابق کیبنٹ مشن نے اس وقت کے جنوبی ایشیا کے تین زونز بنانے کی تجویز دی۔ ایک زون جس میں ہندو اکثریتی صوبے یوپی، بہار، سی پی وغیرہ تھے۔ دوسرا زون یا گروپ ایسا تھا جس میں مسلمانوں کی اکثریت والے صوبے پنجاب، سندھ اور سرحد (موجودہ خیبر پختونخوا) کو شامل کیا گیا۔ اسی طرح تیسرا زون یا گروپ ایسے صوبوں کا تھا جس میں مسلمانوں کی بڑی تعداد تھی لیکن انہیں اکثریت حاصل نہیں تھی اور اس گروپ میں بنگال اور آسام کے صوبے شامل تھے۔
کابینہ مشن نے صوبوں کے یہ گروپس ایک مرکز یا کنفیڈریشن کے تحت رکھنے کی تجویز دی تھی جس میں مرکز کے پاس صرف دفاع، مواصلات اور خارجہ امور کے شعبے تھے اور ان شعبوں کے لیے وسائل حاصل کرنے کا اختیار بھی مرکزی حکومت کو دیا گیا تھا۔
کنفیڈریشن مرکزی حکومت کے ایسے انتظام کو کہتے ہیں جس میں شامل اکائیوں یا ریاستوں کو اس انتظام میں شامل ہونے کے بعد اپنی مرضی سے الگ ہونے کا اختیار بھی حاصل ہوتا ہے۔
اسی لیے کابینہ مشن منصوبے کے تحت صوبوں کو اپنے اپنے علاقے کے لیے آئین بنانے کا اختیار بھی دیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ صوبوں کو یہ اختیار بھی دیا گیا کہ 10 سال کے بعد وہ اس کنفیڈریشن میں شامل رہنے یا نہ رہنے کا فیصلہ کر سکتے ہیں۔
کابینہ مشن اعلان کر چکا تھا کہ وہ ہندوستان کو تقسیم کرنے نہیں آیا بلکہ اس نے ایک کنفیڈریشن کا نقشہ پیش کیا تھا۔
کیبنٹ مشن کی تجاویز کو مسلم لیگ کے قائد محمد علی جناح نے تسلیم کرلیا۔ اس فیصلے کے اسباب کے بارے میں ڈاکٹر جعفر احمد کا کہنا ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مسلم لیگ کی قیادت کے لیے یہ سوال اہمیت اختیار کر گیا تھا کہ مستقبل کے کسی بھی آئینی بندوبست میں مسلمانوں کو جو ہندوستان کی آبادی میں ایک اقلیت ہیں مناسب جگہ کس طرح دی جائے گی۔
سن 1927 میں محمد علی جناح نے سندھ ، بلوچستان اور سرحد کو صوبے بنانے کا مطالبہ کیا تھا کیوں کہ اس وقت تک صرف پنجاب اور بنگال ہی دو مسلم اکثریتی صوبے تھے۔
ڈاکٹر جعفر احمد کے مطابق جناح کا مؤقف تھا کہ اگر مزید تین مسلم اکثریتی صوبے بن جاتے ہیں تو ہندوستان کے وفاق میں مسلمانوں کی حیثیت زیادہ نمایاں ہو کر سامنے آجائے گی۔ لیکن ان کے یہ مطالبات نہیں مانے جا رہے تھے۔
ڈاکٹر جعفر کے بقول اگرچہ جناح 1930 کے عشرے سے یہ کہہ رہے تھے کہ مسلمان ہندوستان میں ایک اقلیت نہیں بلکہ ایک قوم ہیں اور 1940 کی قرارداد کا پورا فلسفہ بھی یہی ہے۔
جناح 1940 میں ہندوستان میں مسلمانوں کے صوبوں کی گروپنگ اس خیال سے پیش کر رہے تھے کہ ہندوستان کے مجموعی آئینی ڈھانچے میں ایسے خطے مل جائیں جہاں مسلمان اکثریت میں ہوں گے اور اپنی مرضی کے مطابق اپنا نظامِ حکومت چلا رہے ہوں گے۔
اپنی اسی دلیل کی بنیاد پر کہ مسلمان ہندوستان میں اقلیت نہیں ہیں بلکہ ایک قوم ہیں، جناح پنجاب اور بنگال کی تقسیم کی مخالفت بھی کرتے رہے تھے۔
لیکن کانگریس کیبنٹ مشن کی تجاویز کی مخالفت کررہی تھی۔ کانگریس کے صدر ابو الکلام آزاد، جواہر لعل نہرو اور ولبھ بھائی پٹیل مطالبہ کررہے تھے کہ اقتدار اور انتظامی امور چلانے کا اختیار دستور ساز اسمبلی کے حوالے کردیا جائے۔
ڈاکٹر جعفر احمد کے بقول کانگریس میں ابتداً کیبنٹ مشن کو تسلیم کرنے پر اتفاقِ رائے ہو گیا تھا۔ لیکن کانگریس کے اندر موجود ایک مضبوط لابی یہ سمجھتی تھی کہ اگر ہم نے مسلم اکثریتی صوبوں کو ایک کنفیڈرل بندوبست میں ساتھ رکھنے کے لیے اتنی بھاری قیمت ادا کی تو 10 سال بعد تمام ہی صوبے اپنے مقدر کا فیصلہ کر رہے ہوں گے اور اس طرح ہندوستان کو متحد رکھنے کے خواب بعد میں بکھر جائیں گے۔
دونوں فریقوں نے عبوری حل کے طور پر تو کیبنٹ مشن کو تسلیم کرلیا تھا لیکن جواہر لعل نہرو نے ایسے اشارے بھی دیے تھے کہ وہ 1945 کے انتخابات کے بعد وجود میں آنے والی قانون ساز اسمبلی کو ایک خود مختار اسمبلی میں بدل دیں گے۔
یہ اس بات کا اشارہ تھا کہ کابینہ مشن کی تجاویز تسلیم کرنے کے بعد خود مختار اسمبلی کو اس پلان میں تبدیلی کا اختیار حاصل ہو جائے گا۔ نہرو نے ایک پریس کانفرنس میں صوبوں کی گروپنگ کے فارمولے ہی کو غیر حتمی قرار دے دیا تھا۔
ان کے اس بیان کے بعد محمد علی جناح کی قیادت میں مسلم لیگ کابینہ مشن کی حمایت سے دست بردار ہوگئی۔
بعد ازاں کانگریس نے دستور سازی کے سوال پر مزید لچک دکھانے سے انکار کردیا جس کے بعد 1946 میں مسلم لیگ نے 'یومِ راست اقدام' منانے کا اعلان کیا۔ اس روز سب مسلمانوں سے اپنے کاروبار بندر رکھنے کی اپیل کی گئی تھی۔ اس اقدام کے دن بنگال اور بالخصوص کلکتہ میں ہندو مسلم فسادات ہوئے جس میں بعض اندازوں کے مطابق تین سے چار ہزار افراد مارے گئے اور کیبنٹ مشن کی ناکامی پر مہر لگ گئی۔
دوسری جنگِ عظیم کے بعد برطانیہ میں بننے والی لیبر پارٹی کی حکومت پہلے ہی واضح کرچکی تھی کہ وہ ہندوستان سے انخلا اور اقتدار مقامی قیادت کو سونپنے کا کام جلد سے جلد نمٹانا چاہتی ہے۔ 20فروری 1947 کو وزیرِ اعظم ایٹلی نے لندن میں اعلان کردیا کہ جون 1948 سے پہلے ہندوستان میں اقتدار کسی مرکزی حکومت یا علاقائی یا صوبائی حکومتوں کو منتقل کردیا جائے گا۔
اس کے ساتھ ہی انہوں نے ہندوستان کے وائسرائے لارڈ ویول کی ریٹائرمنٹ اور ان کی جگہ نئے وائسرائے ایڈمرل وسکاؤنٹ ماؤنٹ بیٹن کی تعیناتی کا اعلان بھی کردیا۔
اس دور کے برطانوی صحافی لینرڈ موزلے اپنی کتاب ’دی لاسٹ ڈیز آف دی برٹش راج‘ میں لکھتے ہیں کہ وزیرِ اعظم ایٹلی نے لارڈ ویول کی ریٹائرمنٹ کے اعلان میں بڑی سرد مہری سے ان کی خدمات کا تذکرہ کیا تھا۔ کیبنٹ مشن کی ناکامی اورراست اقدام کے بعد وزیرِ اعظم ایٹلی لارڈ ویول پر مزید اعتبار کرنے کے لیے تیار نہیں تھے۔
وزیرِ اعظم ایٹلی نے وائسرائے ہند کے لیے ایڈمرل ماؤنٹ بیٹن کا انتخاب کیا تھا۔ ماؤنٹ بیٹن کا تعلق برطانیہ کے شاہی خاندان سے تھا۔ وہ اس وقت کے برطانوی فرماں روا جارج ششم کے کزن تھے اور مشرقِ بعید کی برطانوی نوآبادیات میں اپنی خدمات کی وجہ سے فیصلہ ساز حلقوں میں اہمیت حاصل کرچکے تھے۔
لارڈ ماؤنٹ بیٹن وزیرِ اعظم ایٹلی کے دیے گئے مشن پر ہندوستان آرہے تھے۔ اس مشن کے مطابق انہیں جون 1948 سے پہلے پہلے اقتدار ہندوستانی قیادت کو منتقل کرنا اور اس کے لیے کانگریس اور مسلم لیگ کو کسی متفقہ فارمولے پر راضی کرنا تھا۔
ہندوستان سے برطانیہ کے انخلا کا جو اعلان وزیرِ اعظم ایٹلی نے کیا تھا، کانگریس نے تو اس پر خوشی کا اظہار کیا جب کہ محمد علی جناح نے اسی وقت واضح کردیا تھا کہ وہ پاکستان کے مطالبے سے ایک انچ پیچھے نہیں ہٹیں گے۔
’دی لاسٹ ڈیز آف دی برٹش راج‘ کے مصنف کے مطابق 1947 تک یہ بات واضح ہوچکی تھی کہ ہندوستان کی آزادی کی جنگ صرف ہندوستانیوں اور برطانیہ کے درمیان نہیں ہورہی۔ بلکہ یہ لڑائی اصل میں مسلم لیگ اور کانگریس کے درمیان ہے جس میں سلطنتِ برطانیہ کو محض ایک ریفری کی حیثیت حاصل ہے۔ جیسے جیسے برطانیہ کے انخلا کی اعلان کردہ تاریخ قریب آ رہی تھی، دونوں جماعتوں کے درمیان یہ کشمکش مزید شدید ہورہی تھی۔
مسلم لیگ پاکستان کی جس اسکیم کو رو بہ عمل لانا چاہتی تھی اس میں دو صوبوں بنگال اور پنجاب کے مسلم اکثریتی صوبے شامل تھے جن میں غیر مسلموں کی بھی اچھی خاصی آبادی تھی۔ کانگریس کا مؤقف تھا کہ مسلمانوں کی عددی اکثریت کے باوجود ان دونوں صوبوں میں غیر مسلم آبادی اتنی زیادہ ہے کہ انہیں ہندوستان سے علیحدہ نہیں کیا جاسکتا اور اس غیر مسلم آبادی کی رائے کے بغیر کوئی فیصلہ نہیں ہونا چاہیے۔
بنگال میں اگست 1946 کے راست اقدام کے بعد پیدا ہونے والے حالات کی وجہ سے کشیدگی پہلے ہی عروج پر پہنچ چکی تھی۔
برطانوی مصنفہ یاسمین خان اپنی کتاب ’دی گریٹ پارٹیشن ‘ میں لکھتی ہیں کہ 1946 کے اواخر سے ہی برطانوی اہلکاروں کی ہندوستان کے انتظامی امور میں دل چسپی کم ہوتی جارہی تھی۔ انہیں اندازہ ہوچکا تھا کہ اب ان کا جانا ٹھہر گیا ہے۔ اور ان حالات میں کانگریس اور مسلم لیگ کے اختلافات اب کئی علاقوں بالخصوص بنگال اور پنجاب میں عملاً تصادم کی شکل اختیار کر گئے تھے۔
یاسمین خان لکھتی ہیں کہ پنجاب میں مسلم لیگ نیشنل گارڈ اور راشٹریہ سویم سیوک سنگھ نے ہتھیار جمع کرنا شروع کردیے تھے۔ ماسٹر تارا سنگھ کی اپیل پر سکھوں کی مسلح تنظیم ’اکالی دل‘ بھی منظم ہوچکی تھی۔
پنجاب میں اس وقت خضر حیات ٹوانہ کی حکومت تھی جو پہلے ہی یونینسٹ پارٹی کو مسلم لیگ میں ضم نہ کرنے کی وجہ سے لیگی قیادت کی نظر میں سیاسی حریف بن چکے تھے۔
مسلم لیگ پہلے ٹوانہ حکومت کے خلاف احتجاج کررہی تھی۔ کشیدگی بڑھنے کے بعد خضر حیات نے مسلم لیگ نیشنل گارڈ اور آر ایس ایس پر پابندی عائد کردی تھی۔ لیکن یہ پابندی ایک ہفتے بھی نہ چل سکی اور خضر حیات کو دو مارچ 1947 کو مستعفی ہونا پڑا۔
پنجاب میں جاری بد امنی لاہور، امرتسر، جالندھر اور ملتان جیسے شہری مراکز کو اپنی لپیٹ میں لے چکی تھی۔ اس طرح شمالی ہندوستان اور بمبئی سمیت کئی علاقوں میں بھی لاوا پک رہا تھا۔
برسرِ زمین ان حالات میں لارڈ ماؤنٹ بیٹن کو وزیرِ اعظم ایٹلی کے اعلان کے مطابق ہندوستان میں انتقالِ اقتدار کے لیے مسلم لیگ اور کانگریس کو کسی معاہدے پر راضی کرنا تھا۔
کانگریس متحدہ ہندوستان اور ایک مضبوط مرکزی حکومت کی حامی رہی تھی۔ لیکن بنگال اور پنجاب میں بدلتی ہوئی صورتِ حال کی وجہ سے آٹھ مارچ کو کانگریس کی ورکنگ کمیٹی نے ان دونوں صوبوں کی تقسیم کی تجویز کو تسلیم کرلیا۔ لیکن یہ واضح نہیں تھا کہ یہ صوبے کس طرح تقسیم ہوں گے۔
اپنی تقرری کے کچھ ہی روز بعد لارڈ ماؤنٹ بیٹن 24 مارچ 1947 کو دہلی پہنچے۔ کانگریس اور مسلم لیگ کی قیادت منتظر تھی کہ نئے وائسرائے کے پاس ہندوستان کی تقسیم کا کوئی فارمولا ہوگا جس کی بنیاد پر مذاکرات دوبارہ شروع ہوں گے۔
لیکن ہندوستان پہنچنے کے بعد ماؤنٹ بیٹن نے اپنی ابتدائی ملاقاتوں میں ہی یہ واضح کر دیا کہ وہ کوئی طے شدہ منصوبہ اپنے ساتھ نہیں لائے ہیں۔ اب جب انہوں نے سیاسی رہنماؤں، سرکاری اہل کاروں اور ریاستوں اور راجواڑوں کے حکمرانوں سے ملاقاتیں شروع کیں تو انہیں اس نتیجے پر پہنچنے میں دیر نہیں لگی کہ پاکستان کا مطالبہ تسلیم کیے بغیر انتقالِ اقتدار کا کوئی فارمولا طے نہیں ہوپائے گا۔
اپنا عہدہ سنبھالنے کے صرف دو ماہ بعد 18 مئی 1947 کو ماؤنٹ بیٹن انہی خطوط پر ایک منصوبہ لے کر لندن روانہ ہوگئے۔ اس منصوبے میں پنجاب اور بنگال کی دستور ساز اسمبلی کو ان دونوں صوبوں کی تقسیم کا فیصلہ کرنے کا اختیار دینے کی تجویز بھی شامل تھی۔
شمال مغربی سرحدی صوبے (سرحد) میں چوں کہ کانگریس کی حکومت تھی اس لیے وہاں ریفرنڈم کرانے کی تجویز دی گئی تھی۔ اس کے علاوہ ہندوستان میں موجود 563 چھوٹی چھوٹی ریاستوں اور راجواڑوں کو بھارت اور پاکستان میں سے کسی ایک کے انتخاب کا اختیار دینے کی تجویز بھی دی گئی تھی۔
ریاستوں سے متعلق پلان میں پائے جانے والے سقم کی وجہ سے بعد میں حیدرآباد، جونا گڑھ اور کشمیر کی ریاستوں کے الحاق پر تنازعات پیدا ہوئے۔
مئی 1947 کے آخر میں ماؤنٹ بیٹن برطانیہ سے اپنے منصوبے کی منظوری حاصل کرکے واپس ہندوستان آگئے۔ واپس آنے کے بعد انہوں نے کانگریس اور مسلم لیگ کی قیادت کو اپنے منصوبے سے آگاہ کرنے کے لیے دو جون کو اجلاس منعقد کیا۔
اس اجلاس میں کانگریس کی جانب سے پنڈت نہرو، ولبھ بھائی پٹیل اور جے بی کرپلانی شریک ہوئے۔ مسلم لیگ کی نمائندگی محمد علی جناح، لیاقت علی خان اور سردار عبدالرب نشتر نے کی اور سکھوں کی نمائندگی کے لیے بلدیو سنگھ اس اجلاس میں شامل ہوئے۔
ماؤنٹ بیٹن نے اپنی یادداشتوں میں لکھا ہے کہ انہیں اندازہ تھا کہ جب وہ اپنا منصوبہ بیان کریں گے تو اس پر بحث مباحثے کا آغاز ہوجائے گا اور اس طرح یہ پہلے ہی قدم پر متنازع ہوجائے گا۔
اس لیے وائسرائے نے اس پر رائے طلب کرنے کے بجائے اپنی گفتگو اس انداز میں شروع کی کہ مسائل کے حل کے لیے ملکی مفاد میں یہ حل پیش کیا جا رہا ہے۔ انہیں اس بات کا بھی اندازہ ہے کہ اس منصوبے میں کسی بھی فریق کے سبھی مطالبات پورے نہیں کیے گئے ہیں لیکن اس وقت ایک یہی حل ممکن ہے۔ اس لیے اگر تمام فریق اس سے متفق ہوں تو نصف شب تک اپنی رائے سے آگاہ کر دیں۔
محمد علی جناح نے کہا کہ وہ رات 11 بجے تک اپنا جواب دے دیں گے۔ جناح کے روانہ ہونے سے قبل ماؤنٹ بیٹن نے ان سے کہا کہ مسلم لیگ کے پاس انکار کرنے کا آپشن نہیں ہے۔ دیے گئے وقت پر واپس آکر جناح نے ماؤنٹ بیٹن کو کہا کہ وہ مسلم لیگ کے دستوری صدر کے طور پر تنہا اس منصوبے کی منظوری نہیں دے سکتے۔ اس کے لیے انہیں لیگ کی کونسل سے منظوری حاصل کرنا ہوگی۔
ماؤنٹ بیٹن نے جناح کے اس جواب پر کہا کہ انہوں نے کانگریس سے اس شرط پر اس مںصوبے کی مںظوری لی ہے کہ مسلم لیگ بھی اسے تسلیم کرے گی۔ لیکن جناح نہیں مانے۔
اس پر ماؤنٹ بیٹن نے کہا کہ اگر آپ کا یہ رویہ رہا تو اگلی صبح اجلاس میں کانگریس اور سکھ بھی اس منصوبے سے پیچھے ہٹ جائیں گے۔ اس پر جناح نے صاف جواب دے دیا کہ جو ضروری ہے، وہ کرنا ہوگا۔ یعنی انہوں نے کونسل کی مشاورت کے بغیر یہ منصوبہ تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔
برطانوی مؤرخ ایلکس وان ٹنزلمین نے اپنی تصنیف ’انڈین سمر:دی سیکریٹ ہسٹری آف دی اینڈ آف این ایمپائر‘ میں لکھا ہے کہ اس موقعے پر ماؤنٹ بیٹن نے جناح سے کہا کہ میں آپ کو اپنی محنت ضائع نہیں کرنے دوں گا۔ اس کا حل یہ ہے کہ جب اجلاس ہوگا تو میں کہہ دوں گا کہ میں جناح کی یقین دہانی سے مطمئن ہوں۔ آپ صرف اثبات میں سر ہلا دیجیے گا۔ بعد میں اگر مسلم لیگ کی کونسل یہ منصوبہ تسلیم نہیں کرتی تو آپ سارا الزام مجھ پر ڈال دیجیے گا۔
ٹنزلمین کے بقول ماؤنٹ بیٹن نے جناح کے مزاج کو سمجھتے ہوئے یہ موشگافی کی تھی تاکہ ان کے پیش کردہ معاہدے پر پیش رفت نہ رکے۔
اگلی صبح تمام رہنما وائسرائے ہاؤس پہنچے۔ ماؤنٹ بیٹن انہیں فرداً فرداً سننے کی تیاری کیے بیٹھے تھے لیکن ان کی توقع کے برخلاف اس بار کسی فریق نے کوئی نکتہ چینی کیے بغیر ہی یہ منصوبہ تسلیم کرلیا۔ جب سب نے منصوبے کے نکات پر رضا مندی ظاہر کردی تو لارڈ ماؤنٹ بیٹن فاتحانہ انداز میں کھڑے ہوئے اور اس فارمولے پر عمل درآمد کے لیے اپنا منصوبہ سب کے سامنے میز پر رکھا۔
ان کے منصوبے کے پہلے ہی پیرگراف نے اجلاس کے شرکا کو سکتے میں ڈال دیا کیوں کہ اس میں لکھا تھا کہ اقتدار کی منتقلی 15 اگست 1947 کو کی جائے گی۔ یہ جون 1948 سے نو ماہ پہلے کی تاریخ تھی جس کا اعلان وزیرِ اعظم ایٹلی نے کیا تھا۔
کانگریس اور مسلم لیگ کے قائدین ابھی اس اچانک اعلان پر حیرت زدہ ہی تھے کہ ماؤنٹ بیٹن نے اجلاس برخاست کردیا اور یہ اعلان بھی کر دیا کہ سبھی رہنما اس مںصوبے کی مںظوری کا اعلان آل انڈیا ریڈیو پر کریں گے۔
ایلکس وان ٹنزلمین لکھتی ہیں کہ اس مںصوبے میں دونوں فریقوں کو سمجھوتے کرنا پڑے تھے۔ کانگریس کو ہندوستان کی تقسیم قبول کرنا پڑی اور جناح کو ان کے اپنے لفظوں میں ایک ’خستہ حال‘ پاکستان تسلیم کرنا پڑا۔
تین جون 1947 کی سہ پہر پنڈت نہرو، جناح اور لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے ہندوستان کی تقسیم اور انتقالِ اقتدار کے اس فارمولے کو آل انڈیا ریڈیو پر اپنے خطابات میں تسلیم کرنے کا اعلان کر دیا۔
مؤرخین لکھتے ہیں کہ اس اعلان سے کہیں آزادی کی خوشی منائی گئی اور کہیں ہندوستان کی تقسیم پر غم و غصے کا اظہار کیا گیا۔ لیکن آنے والے دنوں میں یہ خوشی اور غصہ نفرت اور وحشت کی آگ میں تبدیل ہوتا گیا جس نے دونوں ملکوں کے قیام کے وقت ہونے والے فسادات میں لاکھوں انسانوں کو نگل لیا۔
ہندوستان میں برطانوی نو آبادیاتی دور پر کئی کتابوں کے مصنف ولیم ڈیل رمپل نے اپنے ایک مضمون میں لکھا تھا کہ آج تک اس بات کا جواب نہیں مل سکا ہے کہ ماؤنٹ بیٹن نے وزیرِ اعظم کی دی ہوئی تاریخ سے نو ماہ قبل ہی ہندوستان میں اقتدار کی منتقلی کا اعلان کیوں کیا۔ ان کے منصوبے میں سرحدوں کے تعین کے لیے کوئی واضح حکمتِ عملی یا فارمولا بھی نہیں تھا اور ہندوستان جیسے وسیع خطے میں یہ کام اتنا آسان نہیں تھا جو چند ہفتوں کے دورانیے میں مکمل ہو جاتا۔
وہ لکھتے ہیں کہ شاید ماؤنٹ بیٹن فریقین کو زیادہ وقت دینا نہیں چاہتے ہوں کیوں کہ ماضی میں بھی جب جب ایسا ہوا تھا تو اتفاقِ رائے مخالفت میں بدل جاتا تھا۔
لیکن ڈیل رمپل لکھتے ہیں کہ اس اچانک اعلان نے انتشار کو مزید ہوا دی۔ جلد بازی کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ ایک برطانوی جج سر ریڈکلف کو صرف 40 روز کی مدت کے اندر نئی قائم ہونے والی دونوں ریاستوں کے سرحدی تعین کی ذمے داری دے دی گئی اور سرحدوں کا اعلان اس وقت ہوا جب ہندوستان کو آزاد ہوئے دو دن ہوچکے تھے۔