رائے عامہ کے ایک تازہ ترین جائزے کے مطابق بہت سے امریکی ملک میں جمہوریت کی موجودہ صورت حال اور منتخب عہدیداروں کے طریقہ انتخاب کے بارے میں مایوس نظر آتے ہیں۔
امریکی شہریوں کی تقریباً نصف تعداد یقین رکھتی ہے کہ نومبر میں ہونے والے وسط مدتی انتخابات میں ووٹوں کی درست گنتی کی جائے گی۔ پھر بھی یہ تناسب سن 2020 کے انتخابات سے قبل کیے گئے جائزے سے بہتری کو ظاہر کرتا ہے جب اس سال ہر دس میں سے صرف چار امریکی انتخابات کی گنتی کے درست ہونے پر اعتماد کرتے تھے۔
ایسوسی ایٹڈ پریس-این او آر سی سنٹر فار پبلک افیئرز ریسرچ کا مشترکہ جائزہ امریکہ کے تقریباً دو سال قبل صدارتی انتخابات کے بعد بڑے پیمانے پر دھوکہ دہی کے جھوٹے دعوؤں اور واشنگٹن میں کانگریس کی عمارت پر پرتشدد حملے کے بعدلیا گیا ہے۔
تازہ ترین رجحان ظاہر کرتا ہے کہ صرف 9 فیصد امریکی بالغ لوگوں کا خیال ہے کہ جمہوریت "انتہائی" یا "بہت اچھا" کام کر رہی ہے، جبکہ باون فیصد کا کہنا ہے کہ یہ ٹھیک کام نہیں کر رہی ہے۔
دو سال پہلے سے ریپبلکن پارٹی کی حمایت کرنے والے لوگ اب ڈیموکریٹس کے مقابلے میں کہتے ہیں کہ جمہوریت ٹھیک کام نہیں کر رہی ہے۔ اس سال اڑسٹھ فیصد ریپبلکن دو سال پہلے کے بتیس فیصد کے مقابلے میں ایسا محسوس کرتے ہیں۔
ایسے ڈیموکریٹس جو جمہوریت کے کام کرنے کے متعلق منفی خیال رکھتے ہیں، ان کے تناسب میں سن 2020 کے مقابلے میں کمی آئی ہے جو تریسٹھ فیصد سے کم ہوکر چالیس فیصد رہ گیا ہے۔
خبر رساں ادارے "ایسو سی ایٹڈ پریس" کی ایک رپورٹ کے مطابق ہر صدارتی انتخاب کے بعد ہارنے والے امیدوار کی پارٹی کے اراکین کو مایوسی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ سن 2020 کے انتخابات کا اثر عام حالات سے زیادہ گہرا رہا ہے کیونکہ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کے اتحادیوں نے ڈیموکریٹس پر جھوٹا الزام لگایا تھا کہ انہوں نےالیکشن چرایا۔
اس سلسلے میں رپورٹ کہتی ہے کہ ووٹنگ مشینوں میں بڑے پیمانے پر دھوکہ دہی یا ہیرا پھیری ہونے کا کوئی ثبوت نہیں ملا ۔امریکہ کی کلیدی ریاستوں میں مکمل چھان بین نے ڈیموکریٹ امیدوار جو بائیڈن کی جیت کو برقرار رکھا جبکہ ججز، جن میں سے کچھ ٹرمپ کے مقرر کردہ تھے، نے نتائج کو چیلنج کرنے والے متعدد مقدمات کو مسترد کردیا۔
ٹرمپ کے اپنے اٹارنی جنرل ولیم بار نے ان دعوؤں کو جھوٹا قرار دیا تھا۔
امریکی جمہوریت کے بارے میں عمومی مایوسی کئی دہائیوں تک ملک بھر میں بڑھتی ہوئی تقسیم کے بعد سامنے آئی ہے جو کہ صدارتی اور کانگریس کی دوڑ سے لے کر اسکول بورڈز کےمقامی مقابلوں میں بھی نظر آتی ہے۔
سروے کے مطابق مجموعی طور پر، صرف ایک چوتھائی امریکی بالغ، جن میں ریپبلکن اور ڈیموکریٹس کا یکساں تناسب شامل ہے، کہتے ہیں کہ وہ رہنماوں کے انتخاب کے طریقے کے بارے میں پر امید ہیں، جب کہ تینتالیس فیصد کا کہنا ہے کہ وہ اس سے مایوس ہیں۔
اس کے علاوہ اکتیس فیصد دونوں میں کسی بھی خیال کو محسوس نہیں کرتے ہیں۔
سروے میں ری پبلکنز کا ایک بڑا طبقہ، اٹھاون فیصد ، اب بھی یقین رکھتا ہے کہ بائیڈن کا انتخاب جائز نہیں تھا۔ ایسی سوچ رکھنے والے ری پبلیکن کا تناسب جولائی 2021 میں چھیاسٹھ فیصد تھا۔