واشنگٹن —
میرا پورا نام عبدالقیوم ہے اور میں آزاد کشمیر کے دارلحکومت مظفرآباد کے ایک مضافاتی علاقے کا رہائشی ہوں۔
چند نجی و جوہات کی وجہ سے تعلیم حاصل کرنے کسی بڑے اور معروف تعلیمی ادارے میں نہیں جا سکا اور فاصلاتی نظام تعلیم پر اکتفا کرنا پڑا۔ گھریلو ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ تعلیم کے حصول کی جدوجہد جاری رکھی اور ایک دن وہ سکالرشپ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا جو مجھ سمیت کئی پاکستانی طلبا کا خواب ہوتا ہے۔
امریکہ ہر سال پاکستان سمیت دنیا بھر کے طلبا کے لیئے مختلف مضامین اور مختلف تعلیمی سطح پر سکالرشپس کا اعلان کرتا ہے اورمتعلقہ ممالک میں موجود یو ایس بیورو آف ایجوکیشن اینڈ کلچرل آفیرز کے دفاتر خالصتاً میرٹ پر طلبا کا انتخاب کرتے ہیں۔ ان طلبا کو امریکہ کی مختلف ریاستوں میں معیاری تعلیمی اداروں میں بھیجا جاتا ہے۔جہاں وہ نہ صرف تعلیم حاصل کرتے ہیں بلکہ امریکہ سمیت کئی ممالک کے طلبا سے ملتے ہیں۔
میں اسی طرح کی ایک سکالرشپ پر گذشتہ کچھ عرصہ سے امریکی ریاست ورجینیا کے ناردرن ورجینیا NOVAکالج میں صحافت کی تعلیم حاصل کررہا ہوں۔ میرے لیے یہ ایک منفرد تجربہ ہے کہ میں ’نووا‘ اور وائس آف امریکہ میں اعلیٰ تعلیم اور صحافتی ہنر سیکھ رہا ہوں۔ میں ’وائس آف امریکہ‘ کا تہ دل سے مشکور ہوں جس نے امریکہ میں میرے تجربات کو پاکستانی نوجوانوں کے ساتھ ’شیئر‘ کرنے کا موقع فراہم کیا۔
آپ میرے سلسلہ وار مضمون ’عبدل کا امریکہ‘ کو ہر ہفتے ’وائس آف امریکہ‘ کی اردو ویب سائٹ پر پڑھ سکتے ہیں اور اپنی رائے فیس بک کے خصوصی صفحہ یا ای میل پر دے سکتے ہیں۔ میری کوشش ہو گی کہ میں ان چھوٹے چھوٹے تجربات کو آپ سے پوری ایمانداری کے ساتھ شیئر کروں جنھیں عام طور پر لوگ نظر انداز کر دیتے ہیں، لیکن وہ انتہائی اہم ہوتے ہیں۔
میں آگے چل کر ان پاکستانی طلبا جو اعلیٰ / جدید تعلیم کے لیے سکالر شپ یا ذاتی اخراجات پر امریکہ آنا چاہتے ہیں کی اپنے تجربے کی روشنی میں راہنمائی کرنے کی کوشش کروں گا، تاکہ طلبا مختلف ایجنٹوں کے ہاتھوں لٹنے کے بجائے صرف اپنی محنت اور اہلیت پر تعلیم حاصل کرنے امریکہ آسکیں۔
میری دانست میں پاکستان کا نوجوان سوشل میڈیا کا استعمال کرکے معاشرے میں مثبت تبدیلی لاسکتا ہے۔ معاشرے میں پائے جانے والی خرابیوں کی نشاندہی کرتے ہوئے شعور کی بیداری میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔ اسلامی اقدار کو سینے سے لگائے بغیر تری کا حصول ممکن نہیں، لیکن ترقی یافتہ معاشروں سے سبق حاصل کرکے معاشرے میں پائی جانے والی عدم برداشت اور غیر مہذب رویے کو کم ضرور کیا جاسکتا ہے۔
میرا خیال ہے کہ مستقبل قریب میں پاکستان کے حکمرانوں کے سب سے بڑے ناقدین نوجوان نسل ہوگی جو بد عنوانی، ناانصافی اور اقربا پروری کے خلاف سیسہ پلائی دیوار ثابت ہوگی۔
مجھے یقین ہے کہ پاکستان کا مستقبل روشن ہے، کیونکہ پاکستان کے نوجوان تعلیم سے محبت کرتے ہیں اور جدید تعلیم کی اہمیت سے بھی واقف ہیں۔ نوجوان سوچتے ہیں اور با صلاحیت ہیں۔ لیکن، ضرورت اس امر کی ہے کہ اُن کی صلاحیتوں کو یکجا کرکے درست سمت دی جائے۔
عبدل کا امریکہ
اردو فیس بک
چند نجی و جوہات کی وجہ سے تعلیم حاصل کرنے کسی بڑے اور معروف تعلیمی ادارے میں نہیں جا سکا اور فاصلاتی نظام تعلیم پر اکتفا کرنا پڑا۔ گھریلو ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ تعلیم کے حصول کی جدوجہد جاری رکھی اور ایک دن وہ سکالرشپ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا جو مجھ سمیت کئی پاکستانی طلبا کا خواب ہوتا ہے۔
امریکہ ہر سال پاکستان سمیت دنیا بھر کے طلبا کے لیئے مختلف مضامین اور مختلف تعلیمی سطح پر سکالرشپس کا اعلان کرتا ہے اورمتعلقہ ممالک میں موجود یو ایس بیورو آف ایجوکیشن اینڈ کلچرل آفیرز کے دفاتر خالصتاً میرٹ پر طلبا کا انتخاب کرتے ہیں۔ ان طلبا کو امریکہ کی مختلف ریاستوں میں معیاری تعلیمی اداروں میں بھیجا جاتا ہے۔جہاں وہ نہ صرف تعلیم حاصل کرتے ہیں بلکہ امریکہ سمیت کئی ممالک کے طلبا سے ملتے ہیں۔
میں اسی طرح کی ایک سکالرشپ پر گذشتہ کچھ عرصہ سے امریکی ریاست ورجینیا کے ناردرن ورجینیا NOVAکالج میں صحافت کی تعلیم حاصل کررہا ہوں۔ میرے لیے یہ ایک منفرد تجربہ ہے کہ میں ’نووا‘ اور وائس آف امریکہ میں اعلیٰ تعلیم اور صحافتی ہنر سیکھ رہا ہوں۔ میں ’وائس آف امریکہ‘ کا تہ دل سے مشکور ہوں جس نے امریکہ میں میرے تجربات کو پاکستانی نوجوانوں کے ساتھ ’شیئر‘ کرنے کا موقع فراہم کیا۔
آپ میرے سلسلہ وار مضمون ’عبدل کا امریکہ‘ کو ہر ہفتے ’وائس آف امریکہ‘ کی اردو ویب سائٹ پر پڑھ سکتے ہیں اور اپنی رائے فیس بک کے خصوصی صفحہ یا ای میل پر دے سکتے ہیں۔ میری کوشش ہو گی کہ میں ان چھوٹے چھوٹے تجربات کو آپ سے پوری ایمانداری کے ساتھ شیئر کروں جنھیں عام طور پر لوگ نظر انداز کر دیتے ہیں، لیکن وہ انتہائی اہم ہوتے ہیں۔
میں آگے چل کر ان پاکستانی طلبا جو اعلیٰ / جدید تعلیم کے لیے سکالر شپ یا ذاتی اخراجات پر امریکہ آنا چاہتے ہیں کی اپنے تجربے کی روشنی میں راہنمائی کرنے کی کوشش کروں گا، تاکہ طلبا مختلف ایجنٹوں کے ہاتھوں لٹنے کے بجائے صرف اپنی محنت اور اہلیت پر تعلیم حاصل کرنے امریکہ آسکیں۔
میری دانست میں پاکستان کا نوجوان سوشل میڈیا کا استعمال کرکے معاشرے میں مثبت تبدیلی لاسکتا ہے۔ معاشرے میں پائے جانے والی خرابیوں کی نشاندہی کرتے ہوئے شعور کی بیداری میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔ اسلامی اقدار کو سینے سے لگائے بغیر تری کا حصول ممکن نہیں، لیکن ترقی یافتہ معاشروں سے سبق حاصل کرکے معاشرے میں پائی جانے والی عدم برداشت اور غیر مہذب رویے کو کم ضرور کیا جاسکتا ہے۔
میرا خیال ہے کہ مستقبل قریب میں پاکستان کے حکمرانوں کے سب سے بڑے ناقدین نوجوان نسل ہوگی جو بد عنوانی، ناانصافی اور اقربا پروری کے خلاف سیسہ پلائی دیوار ثابت ہوگی۔
مجھے یقین ہے کہ پاکستان کا مستقبل روشن ہے، کیونکہ پاکستان کے نوجوان تعلیم سے محبت کرتے ہیں اور جدید تعلیم کی اہمیت سے بھی واقف ہیں۔ نوجوان سوچتے ہیں اور با صلاحیت ہیں۔ لیکن، ضرورت اس امر کی ہے کہ اُن کی صلاحیتوں کو یکجا کرکے درست سمت دی جائے۔
عبدل کا امریکہ
اردو فیس بک
Abdul ka Amrika - Journey of a Pakistani student in America from Urdu VOA on Vimeo