ہالی وڈ کی کلاسک فلموں ’لارنس آف عربیہ‘ اور ’ڈاکٹر ژواگو‘ سے عالمگیر شہرت پانے والے ہالی وڈ اسٹار عمر شریف 83 سال کی عمر میں انتقال کرگئے۔
مصر کے سرکاری ٹی وی کے مطابق عمر شریف کے ایجنٹ نے ان کی موت کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ عمر شریف قاہرہ کے اسپتال میں داخل تھے جہاں انہیں دل کا دورہ پڑا جس سے وہ جانبر نہ ہوسکے۔
سنہ 1962 میں بننے والی ڈیوڈ لین کی فلم ’لارنس آف عربیہ‘ میں شریف علی کے کردار نے عمر شریف کو پلک جھپکتے شہرت اور مقبولیت کی بلندیوں پر پہنچا دیا تھا۔ عمر شریف نے ’لارنس آف عربیہ‘ میں بہترین اداکاری پر دو گولڈن گلوب ایوارڈز جیتے جبکہ اُنھیں آسکر ایوارڈز کے لئے نامزد کیا گیا۔
ڈیوڈ لین کی ہی ڈائریکٹ کردہ ایک اور فلم ’ڈاکٹر ژواگو‘ نے عمر شریف کی مقبولیت کو دوام بخشنے میں اہم کردار ادا کیا۔ اس فلم میں بھی بہترین اداکاری پر عمر شریف کو ’گولڈن گلوب ایوارڈ‘ سے نوازا گیا تھا۔
عمر شریف کے بارے میں دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ جتنے اچھے اداکار تھے اتنے ہی اچھے اور ماہر برج کے کھلاڑی بھی تھے۔ عربی، انگلش، یونانی اور فرانسیسی زبانیں بولنے والے عمر شریف گھڑ دوڑ کے بھی شوقین تھے۔
عمر شریف نے فلمی کیرئیر کی شروعات مصری فلم ’دی بلیزنگ سن‘ سے کی جس میں ان کی ہیروئن مشرق وسطیٰ کی مشہور اداکارہ فاتن حماما تھیں۔اس کے بعد متعدد مصری فلموں میں کام کرنے کے بعد 1958 میں عمر شریف نے فرانسیسی لو اسٹوری ’گوہا‘ میں کام کیا۔
’لارنس آف عربیہ‘ کے بعد عمر شریف نے ’دی فال آف دی رومن ایمپائر‘ میں صوفیہ لارین کے شوہر کا کردار نبھایا۔
عمر شریف کی دیگر ہٹ فلموں میں ’بی ہولڈ اے پیل ہارس‘، ’دی یلو رولز رائس‘، ’چنگیزخان، میکناز گولڈ اور’دی نائٹ آف جنرلز‘ شامل ہیں۔
سال 2003 میں ریلیز ہونے والی فرانسیسی فلم مونیسور ابراہیم میں ایک مسلمان دکاندار کا رول شاندار طریقے سے ادا کرنے پر عمر شریف کو وینس فلم فیسٹول میں بہترین اداکار کے ایوارڈ سے نوازا گیا۔
مصر کے امیر گھرانے میں 1932میں پیدا ہونے والے مائیکل شہلوب نے 1955 میں اسلام قبول کرکے عمر شریف نام رکھا اور 1954 میں فاتن حماما کو جیون ساتھی بنایا۔ لیکن، دونوں میں 1974میں علیحدگی ہوگئی۔ دونوں کا ایک بیٹا طارق ہے جس نے آٹھ سال کی عمر میں ڈاکٹر ژواگو میں بطور چائلڈ ایکٹر کام کیا تھا۔
عمر شریف نے اپنی آخری فیچر فلم میں سنہ 2013 میں کام کیا تھا۔