جمعہ کو افغانستان پر اس امریکی حملے کے 10 برس مکمل ہوگئے جس کے نتیجے میں اس ملک پر سے طالبان کی حکومت خاتمہ ہوگیا تھا۔ لیکن 10 برس قبل شروع ہونے والی یہ لڑائی امریکی تاریخ کی طویل ترین جنگ بن چکی ہے جس میں اب تک ہزاروں انسان اور اربوں ڈالرز جھونکے جاچکے ہیں۔
گیارہ ستمبر 2001ء کے دہشت گرد حملوں کے 26 روز بعد امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے افغانستان پر چڑھائی کردی تھی جس کا مقصد وہاں سے طالبان کے اقتدار کا خاتمہ اور ان کی پناہ میں موجود القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کو ٹھکانے لگانا تھا جسے امریکی حکام نے ان حملوں کا ذمہ دار ٹہرایا تھا۔
لیکن آج دس برس بعد طالبان کی جگہ اقتدار سنبھالنے والے افغانستان کے صدر حامد کرزئی کا یہ کہنا ہے کہ ان کی حکومت اور اس کے عالمی اتحادی افغان عوام کی حفاظت کرنے میں ناکام ہوگئے ہیں۔
افغانستان پر امریکی حملے کے دس برس مکمل ہونے کے موقع پر معاصر ادارے 'بی بی سی' کو دیے گئے ایک انٹرویو میں صدر کرزئی نے موقف اختیار کیا کہ نیٹو، امریکہ اور پڑوسی ملک پاکستان کو افغان جنگ کے آغاز میں ہی طالبان کے محفوظ ٹھکانوں کے خاتمے کو اپنا ہدف بنانا چاہیے تھا۔
افغان صدر نے اپنے اس الزام کا اعادہ کیا کہ طالبان کو بعض پاکستانی عناصر کی حمایت حاصل ہے۔ واضح رہے کہ پاکستان اس الزام کی تردید کرتا آیا ہے۔
امریکی فوج کے ریٹائرڈ جنرل اسٹینلے میک کرسٹل نے بھی افغان جنگ کے 10 برس مکمل ہونے پر منعقد کردہ ایک خصوصی تقریب سے خطاب میں کہا کہ افغانستان میں عمل درآمد کے منتظر کاموں میں سب سے مشکل وہاں ایک ایسی قانونی حکومت کا قیام ہے جسے نہ صرف عام افغان باشندوں کا اعتماد حاصل ہو بلکہ وہ طالبان کے بہتر متبادل کا کردار ادا کرسکے۔
افغانستا میں تعینات عالمی افواج کی 2009ء سے 2010ء تک قیادت کرنے اور بعد ازاں ایک متنازعہ مضمون لکھنے پر امریکی فوج سے فارغ کیے گئے جنرل میک کرسٹل کا کہنا تھا کہ افغان جنگ افغانستان کی حالیہ تاریخ کے "ایک خوف زدہ کردینے کی حد تک سادہ منظر نامے" میں تبدیل ہوچکی ہے۔
جنگ کے 10 سال مکمل ہونے پر نیٹو کا کہنا ہے کہ اس کی جانب سے افغانستان کی سلامتی کی ذمہ داریاں مقامی افواج کو سونپنے کا عمل شروع کردیا گیا ہے۔ اس عمل کا آغاز رواں برس کیا گیا تھا اور 2014ء میں اس کی تکمیل پر تمام غیر ملکی افواج کے افغانستان سے انخلا کا ہدف مقرر کیا گیا ہے۔
نیٹو کے سیکریٹری جنرل آندریس فوگ راسموسن نے جمعرات کو اس یقین کا اظہار کیا تھا کہ ذمہ داریوں کی منتقلی کا یہ عمل "پٹری سے نہیں اترے گا"۔ تاہم یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ سیکیورٹی کی ذمہ داریوں کی افغان فورسز کو منتقلی کے آغاز کے بعد سے اب تک شدت پسند کئی اہم مقامات اور شخصیات کو اپنے حملوں کا نشانہ بنا چکے ہیں۔
معروف دفاعی جریدے 'جینز' سے منسلک تبصرہ نگار ٹیری پاٹر نے اپنی ایک حالیہ رپورٹ میں کہا ہے کہ "عالمی قوتوں کےلیے افغانستان کو ایک ایسی قابلِ قبول صورت میں چھوڑ کر یہاں سے انخلا کا وقت ہاتھوں سے نکلتا جارہا ہے جسے دیکھ کر اس وقت، پیسے اور جانوں کا جواز پیش کیا جاسکے جو یہاں لٹائی گئیں"۔
امریکی حملے کے 10 برس بعد آج افغانستان میں عالمی افواج کے ایک لاکھ 30 ہزار سے زائد فوجی موجود ہیں جن میں امریکیوں کی تعداد ایک لاکھ کے لگ بھگ ہے۔
جمعہ کو افغانستان پر امریکی حملے کے دس برس مکمل ہونے پر کوئی عوامی تقریب یا احتجاج منعقد نہیں ہوا۔ تاہم ایک روز قبل دارالحکومت کابل میں سینکڑوں افغانیوں نے احتجاج کرتے ہوئے اپنے ملک سے غیر ملکی افواج کے فوری انخلا کا مطالبہ کیا تھا۔