رسائی کے لنکس

احمد فراز کی برسی: خوابوں کے بیوپاری کو دکان بڑھائے تین برس بیت گئے


احمد فراز کی برسی: خوابوں کے بیوپاری کو دکان بڑھائے تین برس بیت گئے
احمد فراز کی برسی: خوابوں کے بیوپاری کو دکان بڑھائے تین برس بیت گئے

شہرِ محبت ہجر کا موسم، عہد و وفا اور میں

تُو تو اِس بستی سے خوش خوش چلا گیا اور میں؟

تُو جو نہ ہو تو جیسے سب کو چپ لگ جاتی ہے

آپس میں کیا باتیں کرتے، رات ، دِیا اور میں

احمد فراز کا شمار بیسویں صدی کے عظیم ترین، جدید شعراٴ میں کیا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ فراز، جن کا موازنہ عام طور پر فیض احمد فیض سے کیا جاتا ہے، موجودہ دور کے بہترین شعراٴ میں سے ایک تھے۔

آپ کے انداز میں سادگی کے ساتھ ساتھ پُرکاری بھی نظر آتی ہے اور آپ نے غمِ دوراں کو غمِ جاناں کے ساتھ بڑی خوبصورتی سے پرویا ہے۔

غمِ دنیا بھی غمِ یار میں شامل کرلو

اور اُن کا یہ کہنا:

اِس قدر خوف ہے اب شہر کی گلیوں میں کہ لوگ

چاپ سنتے ہیں تو لگ جاتے ہیں دیوار کے ساتھ

تین برس بیت گئے فراز کو ہم سے بچھڑے، لیکن اُن کی شہرت اور مقبولیت میں کوئی فرق نہیں آیا۔

سنا ہے لوگ اُسے آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں

یہ بات ہے تو چلو بات کرکے دیکھتے ہیں

فراز کا اصل نام سید احمد شاہ تھا۔ آپ کوہاٹ میں 14جنوری 1931ء کو پیدا ہوئے۔ آپ نے پشاور یونیورسٹی سے اردو اور فارسی میں ماسٹرز کیا۔ اُن کی شخصیت اور فن پر بہت کچھ لکھا اور بہت کچھ کہا گیا ہے اور جب تک اردو غزل زندہ رہے گی فراز کا نام درخشاں رہے گا۔

آج جانتے ہیں کہ فراز کے ہم عصر اُن کے بارے میں کیا کہتے ہیں۔

امجد اسلام امجد اردو نظم کا ایک بڑا نام ہے۔ ’ وائس آف امریکہ‘ سے بات کرتے ہوئے اُنھوں نے کہا کہ، ’احمد فراز کا نام جب بھی آتا ہے تو اُس کے ساتھ ہی بیسویں صدی کے نصف آخر کی جو غزل ہے اُس کا سب سے روشن استعارہ آپ اُن کو کہہ سکتے ہیں کہ اُنہی کے حوالے سے ایک پوری نسل پہچانی جاتی ہے، اور یقیناً وہ بہت دنوں تک یاد رکھے جائیں گے‘۔

یہ جو سرگشتہ سے پھرتے ہیں کتابوں والے

اِن سے مت مل کہ اُنھیں روگ ہیں خوابوں والے

معروف ادیب، شاعر، ڈرامہ نگار اور کا لم نگار اصغر ندیم سید، فراز کی یاد میں گم۔ کہتے ہیں، ’ تین سال بچھڑے ہوئے ہوگئے ہیں لیکن یوں لگتا ہے کہ وہ کہیں گئے ہیں کوئی مشاعرہ پڑھنے اور کچھ دِنوں میں واپس لوٹ آئیں گے‘۔

اُن کی شخصیت بہت ہی شوخ، زندہ دل اور چلبلی تھی۔ اُن کی شخصیت کے نقوش ایسے زندہ ہیں کہ محسوس نہیں ہوتا کہ کوئی دوری ہے۔

اور فراز تو قوم کا ضمیر تھے۔ وہ کیسے مرسکتے ہیں۔ وہ تو جاگ رہا ہے اور وقت کچھ چیزوں کو دھندلا دیتا ہے کچھ کو نہیں۔ فراز اُن میں سے ہیں جِن پر وقت کی گَرد نہیں پڑتی۔

شکوہٴ ظلمت ِ شب سے تو کہیں بہتر تھا

اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے

افتخار عارف کچھ یوں گویا ہوئے:

’فیص احمد فیض، احمد ندیم قاسمی، منیر نیازی اور جون ایلیا کے بعد فراز کا رخصت ہونا اردو ادب کا اور پاکستان کی تہذیبی زندگی کا بڑا خسارہ ہے۔ احمد فراز، فیض کی روایت کے آخری بڑے کلاسیکی شاعر تھے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اُن کا جانا ہم سب کے لیے بہت خسارے اور نقصان کہ بات ہے‘۔

وہ جو آجاتے تھے آنکھوں میں ستارے لے کر

جانے کس دیس گئے خواب ہمارے لے کر

اور فراز کا یہ کہنا کہ:

شہر والوں کو کہاں یاد ہے وہ خواب فروش

پھرتا رہتا تھا جو گلیوں میں غبارے لے کر

شہروالوں کو یہ خواب فروش اور اس کے خواب

آج بھی یاد ہیں ،کیونکہ بقول فراز:

خواب مرتے نہیں

خواب دل ہیں نہ آنکھیں نہ سانسیں کہ جو

ریزہ ریزہ ہوئے تو بکھر جائیں گے

جسم کی موت سے یہ بھی مر جائیں گے

خواب تو روشنی ہیں، نوا ہیں ہوا ہیں

جو کالے پہاڑوں سے رکتی نہیں

خواب تو حرف ہیں

خواب تو نور ہیں

خواب سقراط ہیں

خواب منصور ہیں

خواب مرتے نہیں

آڈیو رپورٹ سنیئے:

XS
SM
MD
LG