علی حیدر ان سر فہرست سنگرز میں شامل ہیں جنہوں نے 90 کی دہائی میں ہی بھارت سمیت دنیا کے بہت سے ممالک میں نہ صرف پاکستانی موسیقی کا سکہ جمایا, بلکہ میوزک لورز کو کئی انمول اور سدا بہار گانے بھی دیئے مثلاً۔۔ ’پرانی جینز اور گٹار‘۔
بیس سال سے زیادہ کا عرصہ ہوا, لیکن نہ تو ’جینز‘ ہی ’پرانی‘ ہوئیں نہ ہی کسی کا ’گٹار‘ سے رشتہ ٹوٹا۔ آج بھی محلے کی جانے کتنی چھتوں پر رات بھر یاروں کے ہنسنے گانے کی محفلیں سجتی ہیں۔۔آج بھی صبح کے دھندلکے میں نوجوان والدین کی ڈانٹ سے بچنے کے لئے دیواریں پھاند کر چپکے سے گھروں میں داخل ہوتے ہیں۔۔گھرکے بڑوں سے چھپ کر سگریٹ پیتے۔۔اور۔۔نئے سسٹم کی پلاننگ کرتے ہیں۔۔
وہی کالج کینٹین کے کونے ہیں۔۔وہی ٹیبل بجا کر گانے گائے جانے کے سہانے منظر ۔۔جنہیں دیکھ دیکھ کر ہم سب بڑے ہوئے ہیں ۔۔۔گزرے دور کی یہی وہ یادیں اور چھوٹی چھوٹی باتیں ہیں جنہوں نے ’پرانی جینز اور گٹار‘ کو کبھی بھولنے ہی نہیں دیا۔
’پرانی جینز۔۔‘ علی حیدر کا ایسا کمال ہے جو شاید اگلے وقتوں میں پکی عمر اور سفید کنپٹیاں رکھنے والا وہ شخض بھی ضرور دہرائے گا جس نے ناک کے کونے پر شیشوں کے چشمے چڑھائے ہوں گے۔ لیکن، وہ جب بھی یہ گانا سنے گا اپنے دور کی سنہری یادیں ۔۔اسے گم صم ضرور کردیں گی۔
علی حیدر نے اپنے کیرئیر کی شروعات پوپ میوزک سے کی تھی اور آج وہ صوفیانہ کلام میں بھی دسترس رکھتے ہیں۔ پوپ میوزک سے صوفی ازم تک کے سفر میں 25 سال گزر گئے۔ ان 25 سالوں میں ان کا تجربہ کیسا رہا اس حوالے سے علی حیدر نے خصوصی طور پر وائس آف امریکہ سے اپنے خیالات شیئر کرتے ہوئے کہا:
’میں نے کیرئیر کی شروعات پوپ میوزک سے کی تھی اور میں ملک کا واحد سنگرہوں جس کے’قرار‘،’چاند سا مکھڑا‘ اور ’داستان‘ سمیت اب تک25 پوپ میوزک البمز ریلیز ہوچکے ہیں۔ لیکن، کچھ سال پہلے زندگی میں بہت سی تبدیلیاں آئیں ۔۔حالات سے رشتے بہت گہرے ہوئے یہاں تک کہ ان کا اثر شخصیت پر بھی پڑا اور گائیکی پر بھی۔میں نے پوپ کے بجائے صوفیانہ کلام گانے پر زیادہ توجہ دی۔‘
’میں بجا طور پر کہہ سکتا ہوں کہ پوپ موسیقی سے صوفی گائیکی تک کا سفرمجھے بہت کچھ سیکھا گیا۔ مجھے روحانی اوردین سے مطابقت رکھنے والا کلام پیش کرنے کا موقع ملا۔ حمد، نعت، نوحہ خوانی، منقبت پیش کیں۔ اسے عوامی پذیرائی بھی خوب ملی۔‘
ان کا مزید کہنا تھا” پہلے صوفی البم کے حوالے سے ایک حیران کن بات بھی بتاتا چلوں ۔ میرا پہلا صوفی البم پاکستان کے بجائے بھارت نے ریلیز کیا۔ اس کا نام تھا ’کی جانا میں کون۔۔‘ اور اسے ’ای ایم آئی انڈیا‘ نے ریلیز کیا تھا ۔ اس البم کو پاکستان میں ہاتھوں ہاتھ لیا گیا۔‘
’پہلے البم کی کامیابی نے دوسرے البم کو سامنے لانے کا حوصلہ بخشا اور یوں ’رب رنگ‘ کے نام سے میرا دوسرا البم ریلیز ہوا۔ اس البم کے دوٹریکس ’ اللہ ۔۔’اور تیرا سیہون رہے آباد‘ کی ویڈیوز بھی آچکی ہیں۔
’تیرا سیہون رہے آباد‘ کی ویڈیو لعل شہباز قلندر کے عرس پر ریلیز کی گئی تھی، اسے بہت زیادہ پسند کیا گیا یہاں تک کہ آج میں جس کنسرٹ میں بھی جاتا ہوں اس کی فرمائش ضرور ہوتی ہے۔‘
علی حیدر اپنے فن کا مظاہرہ کرنے کے لئے دنیا کے متعدد ممالک کا سفر کرچکے ہیں۔ پچھلے دنوں ہی انہوں نے سات سال بعد ایک مرتبہ پھر امریکہ کا دورہ کیااور نیویارک، شکاگو، ڈیلس، ہیوسٹن اور دیگر شہروں میں پر لائیو پرفارمنس دی۔
مستقبل کے پروجیکٹس کے بارے میں علی حیدر کا کہنا ہے’میں اپنے فینز سے جڑا رہنا چاہتا ہوں۔ میں چاہتا ہوں کہ گھر ہویا گاڑی، خوشی ہو یا اداسی، میں اپنے گانوں کی شکل میں اپنے فینز کے ساتھ، ان کی زندگی کا حصہ بنا رہوں اسی لئے ایک البم سے فارغ ہوتے ہی دوسرے پر کام شروع کردیتا ہوں۔‘
’امیر خسرو کا کلام ’چھاپ تلک‘ جسے بہت سے سنگرز گا چکے ہیں میں نے ری ڈو کیا ہے اور آج کل اس کی ویڈیو شوٹ کررہا ہوں۔میوزک کنسرٹس کا سلسلہ بھی جاری ہے اور نئے البم کی تیاری بھی شروع کردی ہے۔ نیا البم 2015کے وسط میں ریلیز ہوگا۔اس کے علاوہ آئندہ رمضان میں ایک نعتیہ البم بھی ریلیز کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں۔‘
علی حیدر جتنے اچھے سنگر ہیں اتنے ہی اچھے اداکار بھی ہیں۔ نوے کی دہائی میں ہی وہ پی ٹی وی کے کئی سیریلز میں اداکاری کرچکے ہیں۔ ’چاند کا مکھڑا‘ ان کا یادگار ڈرامہ ہے۔ وہ کئی ڈرامہ سیریلز کے میوزک تھیم بھی پالولر بناچکے ہیں۔
’ظالم نظروں سے‘ علی حیدر کا ایک اور مشہور گانا ہے۔ جب علی حیدر سے انٹرویو کے دوران یہ پوچھا گیا کہ کیا وہ پھر سے ’ظالم نظروں سے‘ جیسا گانا گا سکتے ہیں، تو علی کا کہنا تھا ’ناممکن۔ اب میں ’فورٹی پلس‘ اور میچور ہوں ۔۔’ظالم نظروں‘ جیسے گانے گانے کا دور نکل گیا۔۔۔