’مشاعرہ‘ بر ِصغیر کی ایک دل پذیر اور پرانی روایت ہے اور آج بھی دنیا بھر میں مختلف ممالک میں اردو سے شغف اور دلچسپی رکھنے والے اس روایت کو بڑے اہتمام سے زندہ رکھے ہوئے ہیں۔
مشاعرہ ایک ایسی اچھوتی و انوکھی محفل ہے جس میں زبان و بیان پر عبور رکھنے والے شعراء اکٹھے ہوتے ہیں، غزلیں و نظمیں سناتے ہیں۔ کوئی محبوب کی خوبصورتی کا ذکر کرتا ہے تو کوئی چاند کے نظارے پر گرہ باندھتا ہے۔ کوئی زندگی کا درد بیان کرتا ہے تو کوئی اپنی شاعری سے زمانے کے مسائل اجاگر کرتا دکھائی دیتا ہے۔ گویا اردو شاعری کیا ہے، جادو کی ایک پٹاری ہے اور شعراء اس پٹاری کے وہ جادو گر ہیں جو لوگوں پر سحر طاری کر دیتے ہیں۔۔۔
یہی جادو ہر برس ’علی گڑھ المنائی ایسو سی ایشن‘ کی جانب سے منعقدہ مشاعرے میں بکھیرا جاتا ہے جو گذشتہ 40 برس سے نہ صرف واشنگٹن بلکہ امریکہ بھر میں اردو مشاعرے کی روایت کے علمبردار ہیں۔ علی گڑھ والوں نے 1975ء میں پہلی مرتبہ شمالی امریکہ میں اردو مشاعرے کی طرح ڈالی۔ 1983ء میں پہلی مرتبہ پاکستان سے احمد فراز اور بھارت سے مجروح سلطان پوری تشریف لائے اور تب سے اب تک ہر برس پاکستان و بھارت کے نامور شعرائے کرام اس مشاعرے کی رونق بڑھاتے ہیں۔
ڈاکٹر عبداللہ علی گڑھ ایسو سی ایشن کے روح ِرواں ہیں اور امریکہ میں مشاعرے کی اس خوبصورت روایت کی پاسداری میں اُن کا کردار بہت اہم اور مضبوط رہا ہے۔ ڈاکٹر عبداللہ خود بھی شعر کہتے ہیں، سُخن نواز ہیں اور اُن کا منفرد انداز ِنظامت ہر برس اس مشاعرے میں لوگوں کی بڑی تعداد کو کھینچ لاتا ہے۔
یہاں یہ ذکر کرنا بھی ضروری ہے کہ علی گڑھ المنائی ایسو سی ایشن ایک فلاحی ادارہ ہے اور بھارت میں بہت سی فلاحی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا ہے۔ علی گڑھ ایسوسی ایشن کی خاص بات ہر برس بھارت میں سینکڑوں طالبعلموں کو وظیفہ فراہم کرنا ہے اور مختلف شعبہ جات میں ان کے لیے کام کرنا ہے۔
علی گڑھ مشاعرہ 27 ستمبر کو ریاست میری لینڈ میں اپنے روایتی انداز میں منعقد کیا گیا۔ پاکستان سے نصیر ترابی، نورین طلعت عروبہ، امداد حسین جبکہ بھارت سے اقبال اشعر، رشمی سنن، مزاحیہ شاعر پاپولر میرٹھی اور منظر بھوپالی تشریف لائے تھے۔ مشاعرے کی صدارت کے فرائض اردو ادب کی مستند شخصیت گوپی چند نارنگ نے نبھائے جنہوں نے امریکہ جیسے ملک میں علی گڑھ مشاعروں کے 40 سال مکمل ہونے پر ایسوسی ایشن کو مبارک پیش کی اور اس مشاعرے کو ایک دل پذیر روایت قرار دیا۔
ہمیشہ کی طرح واشنگٹن اور گردو نواح میں بسنے والے اردو کے دلدادہ اور ادب دوست بڑی تعداد میں شریک ہوئے اور اچھے شعروں پر جی کھول کر داد دی۔
اقبال اشعر کو انکی مشہور نظم ’اردو ہے میرا نام‘ پر خاصی پذیرائی ملی۔ جس میں وہ کہتے ہیں ۔۔۔
اردو ہے میرا نام میں ’خسرو‘ کی پہیلی
میں ’میر‘ کی ہمراز ہوں ’غالب‘ کی سہیلی
’غالب‘ نے بلندی کا سفر مجھ کو سکھایا
’حالی‘ نے مرووت کا سبق یاد دلایا
’اقبال‘ نے آئینہ ِحق مجھ کو دکھایا
’مومن‘ نے سجائی میرے خوابوں کی حویلی
اردو ہے میرا نام میں ’خسرو‘ کی پہیلی
منظر بھوپالی کی بیٹیوں کے حوالے سے غزل کو حاضرین نے بھرپور پذیرائی دی۔ اس غزل سے دو اشعار:
اِن سے قائم ہے تقدس بھی ہمارے گھر کا
صبح کو اپنی نمازوں سے یہ مہکاتی ہیں
اپنے بابا کے کلیجے سے لپٹ کر منظر
زندگی جینے کا احساس دلا جاتی ہیں
نورین طلعت عروبہ کو ان کے مختلف انداز ِاسلوب کی وجہ سے سراہا گیا۔ ان کے چند شعر:
اس آگ کو بجھنے دو یونہی سست روی سے
پانی سے تو پھیلے گا دھواں اور زیادہ
جس روز میں خود ماں بنی اس روز سے مجھ کو
لگنے لگی اچھی میری ماں اور زیادہ
نصیر ترابی سے فرمائش کرکے ان کی مشہور غزل ’وہ ہمسفر تھا‘ سنی گئی۔ کم لوگ اس امر سے واقف ہیں کہ یہ غزل نصیر ترابی نے سقوط ِڈھاکہ کے موقعے پر کہی تھی۔ اس غزل سے دو اشعار:
وہ ہم سفر تھا مگر اس سے ہم نوائی نہ تھی
کہ دھوپ چھاؤں کا عالم رہا، جدائی نہ تھی
عداوتیں تھیں، تغافل تھا، رنجشیں تھیں بہت
بچھڑنے والے میں سب کچھ تھا، بے وفائی نہ تھی
اس برس، واشنگٹن میں منعقدہ علی گڑھ مشاعرے میں پاکستان سے نصیر ترابی، نورین طلعت عروبہ، امداد حسین جبکہ بھارت سے اقبال اشعر، رشمی سنن، پاپولر میرٹھی (مزاحیہ شاعر) اور منظر بھوپالی تشریف لائے