وہ آپ کو اپنے گرد و پیش سے بے خبر، اپنی سوچوں میں گم، کانوں میں ایئر فون لگائے اور نظریں ایک چھوٹی سی روشن سکرین پر جمائے نظر آئیں گے۔
یہ 30 سال سے کم عمر امریکی نوجوان ہیں، لیکن وہ دنیا کے اس سب سے ترقی یافتہ ملک کے معاشرے کا سب سے اہم حصہ ہیں، کیونکہ امریکہ کے سب سے زیادہ ووٹر اسی ایج گروپ سے تعلق رکھتے ہیں۔ لیکن انہیں انتخابات سے عموماً کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ وہ پولنگ اسٹیشنوں پر کم کم دکھائی دیتے ہیں۔ جو چیز انہیں وہاں جانے سے روکتی ہے وہ ہے چھوٹی سکرین کی ایک ٹیکنالوجی۔
یہ وہ نسل ہے جن کے نزدیک ڈاک کا ٹکٹ ایک مذاق کی حیثیت رکھتا ہے۔ ان میں سے شاید ہی کوئی ایسا ہو جس نے ڈاک کے ذریعے کبھی کچھ بھیجا ہو۔ وہ اپنا سارا کام آن لائن کرتے ہیں۔
میسا چوسٹس کی ٹفٹس یونیورسٹی کے سوک لرننگ اینڈ انگیج منٹ کے ڈائریکٹر کی کاواشیما گنز برگ کا کہنا ہے کہ اس کی وجہ یہ ہے ان کے والدین بہت اچھے ہیں جو ان کے سارے کام کر دیتے ہیں۔
سن 2016 کے اعداد و شمار کے مطابق کالج اسٹوڈنٹس اور 30 سال تک کے نوجوان ملک کے کل اہل ووٹروں کی تعداد کا 30 فی صد حصہ ہیں۔ لیکن ان میں سے آدھے سے بھی کم ووٹ دینے آتے ہیں۔ جب کہ 36 سے 70 سال کی عمروں کے لوگ سیاسی ایجنڈا آگے بڑھانے میں اہم کر دار ادا کرتے ہیں۔
کاواشیما گنز برگ کہتے ہیں کہ نوجوانوں کے انتخابی عمل سے دور رہنے کی بہت سی وجوہات ہیں۔ سب سے بڑی وجہ تو یہ ہے کہ وہ اپنی تعلیم اور روزگار کے سلسلے میں اپنے گھروں سے دور ہوتے ہیں۔ ان میں سے اکثر کے پاس اپنی گاڑی نہیں ہوتی اور ان کے ووٹ کا اندارج والدین اپنے ساتھ کروا دیتے ہیں۔ اور وہ الیکشن کے دن اپنے گھر پہنچ نہیں پاتے۔
والدین اپنے نوجوان بچوں کے ووٹ اپنے پتے پر اس لیے رجسٹر کراتے ہیں کیونکہ تعلیم اور روزگار کی وجہ سے انہیں بار بار اپنی رہائش کی جگہیں اور مقامات تبدیل کرنے پڑتے ہیں۔
نوجوان ووٹروں کا ایک اور مسئلہ یہ بھی ہے وہ ووٹ ڈالنے کے لیے اپنے کام سے چھٹی لینے سے ڈرتے ہیں اور خاص طور پر اس وقت جب انہیں تنخواہ فی گھنٹہ کے حساب سے ملتی ہو۔
بدقسمتی سے پولنگ اسٹیشن عموماً اسکولوں یا کمیونٹی سینٹرز میں بنائے جاتے ہیں، جہاں پہنچنے کے لیے گاڑی درکار ہوتی ہے۔ اکثر نوجوانوں نے پاس اپنی گاڑی نہیں ہوتی اور ووٹ ڈالنے نہیں جاتے۔
اگرچہ ڈاک کے ذریعے ووٹ ڈالنے کی سہولت موجود ہے لیکن نوجوانوں کو اپنا ہر کام آن لائن کرنے کی عادت پڑ چکی ہے اور وہ ڈاک کے چکر میں پڑنا نہیں چاہتے۔
فلا ڈلفیا کی پرنسٹن یونیورسٹی کی ایک طالبہ میڈلین میر کہتی ہیں کہ اس پر تو بہت تنقید کی جاتی ہے کہ اسٹوڈنٹس بہت کم ووٹ کیوں ڈالتے ہیں، لیکن یہ کوئی نہیں دیکھتا کہ بیلٹ بکس تک پہنچنا اسٹوڈنٹس کے لیے کتنا مشکل ہوتا ہے۔
اسٹوڈنٹس اور نوجوان کارکنوں کے لیے پولنگ کے دن چھٹی نہ لینے کا ایک اور سبب، ان کے تعلیمی قرضے ہیں۔ تعلیم اب اتنی مہنگی ہو چکی ہے کہ گریجوایشن کرنے والے ایک طالب علم پر عام طور پر ایک سے ڈیڑھ لاکھ ڈالر کا قرض ہوتا ہے۔ اسے اپنے قرض کی قسطیں چکانی ہوتی ہیں تاکہ اس کے بعد وہ رقم جمع کر کے اپنے خواب پورے کر سکے۔
کاواشیما گنز کا کہنا ہے کہ ملک کے 30 فی صد ووٹروں کو انتخابی عمل کی جانب راغب کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ ووٹنگ کو آن لائن کر دیا جائے۔ نوجوانوں کے ووٹوں کے تناسب میں یک دم بہت زیادہ اضافہ ہو جائے، لیکن مستقبل قریب میں ایسا ہوتا ہوا نظر نہیں آتا۔