چین کے شہر ووہان میں ایک نئے مہلک وائرس کی خبر ملنے پر امریکہ میں متعددی امراض کے ماہرین چونکے تھے۔ سردست اس کا علاج موجود نہیں اس لیے محض دیکھ بھال کے نظام کو بہتر بنانے کی کوشش کی جاسکتی ہے۔
کلیولینڈ کلینک کے ڈاکٹر رابرٹ وائلی کا کہنا ہے کہ ہم دیکھ بھال کے کارکنوں کی مہارتوں اور ان کی معلومات کو اپ ڈیٹ کررہے ہیں۔ ان میں حفاظتی آلات کا استعمال شامل ہے تاکہ وہ خود کو اس وائرس سے محفوظ رکھ سکیں۔
بہت سے اسپتالوں میں متعدی امراض کے مریضوں کے لیے خصوصی شعبے ہوتے ہیں۔ لیکن کیا کوئی اسپتال واقعی کرونا وائرس کے لیے تیار ہوسکتا ہے؟ اس بارے میں مڈاسٹار واشنگٹن اسپتال کے ڈاکٹر گلین وورٹمن کہتے ہیں کہ اس کا جواب دینا مشکل ہے کیونکہ اس کا انحصار طلب پر ہے۔ اگر چند مریض ہوں تو اسپتال بہتر طور پر نمٹ سکتا ہے۔ لیکن اگر ان کی تعداد بہت زیادہ ہوگی تو دنیا کا کوئی اسپتال اس کے لیے تیار نہیں ہے۔
بہت سے اسپتالوں میں ڈاکٹر فون یا اسکائپ پر رابطہ کرنے کی حوصلہ افزائی کررہے ہیں۔ یونیورسٹی آف میسوری کے ہیلتھ کئیر کے ڈاکٹر اسٹیفن وٹ کہتے ہیں کہ یہ عام انفلوئنزا کے موسم اور کرونا وائرس جیسی وباؤں، دونوں کے لیے بہترین حل ہے۔ اس طرح مریضوں کا جلد معائنہ کیا جاسکتا ہے اور ان کے سوالوں کے جلد جواب دیے جاسکتے ہیں۔ ہم ان مریضوں کو اسپتال میں رکھ سکتے ہیں جن کا داخل ہونا ضروری ہو اور ان مریضوں کو محفوظ رکھ سکتے ہیں جنہیں اسپتال آنے کی ضرورت نہ ہو۔
مڈاسٹار واشنگٹن اسپتال کے ڈاکٹر گلین کے مطابق دوسرا حل یہ ہے کہ اسپتال کے باہر خیموں میں یا لوگوں کو ان کی کارو ں میں بیٹھے بیٹھے یہ سہولت پہنچائی جائے۔ انھوں نے کہا کہ 85 فیصد مریضوں کو اسپتال میں داخل ہونے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ ان کے لیے بہتر کہ ان کا ٹیسٹ کیا جائے اور پھر اسپتال میں داخل ہونے سے روکا جائے۔
بیماریوں کے کنٹرول کے امریکی مرکز یا سی ڈی سی کا منصوبہ ہے کہ وہ اسپتالوں کو ان کی اپنی سطح پر ٹیسٹ کی سہولت فراہم کرے۔ اس سے دورانیے میں کمی لائی جاسکتی ہے اور ٹیسٹ کے نتائج دنوں کے بجائے گھنٹوں میں مل سکتے ہیں۔
ڈاکٹروں کو سب سے بڑی تشویش یہ ہے کہ ایمرجینسی رومز میں عملے یا دوسرے مریضوں میں وائرس کے پھیلاؤ کو کیسے روکا جائے؟ مڈاسٹار واشنگٹن اسپتال کے ڈاکٹر گلین نے کہا کہ کسی بھی ادارے میں اس وائرس کے پھیلاؤ کو روکنا چیلنج بن جائے گا۔ ویکسین یا علاج کی عدم موجودگی میں یہ مسئلہ برقرار رہے گا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے آخرکار جراثیم پر کنٹرول کا بنیادی طریقہ ہی کارگر ہوگا۔