سینٹا باربرا، کیلیفوریا اور سین فرانسیکو امریکہ کی سر سبز و شاداب اور خوب صورت وادیوں میں ایک حسین پاکستانی جوڑے کی محبت پروان چڑھے اور اس میں آپ کو اتار چڑھاوٴ دیکھنے کو ملے تو اس کا پہلا نام۔۔’بن روئے‘ ہوگا۔
’بن روئے‘ انسانی احساسات اور محبت کی ایسی شاندار عکاسی ہے جس کا جواب کوئی نہیں۔۔ کیوں کہ پاکستانی پردہ سیمیں پر ایسا تصور اب تک محال رہا ہے۔ باالفاظ دیگر ۔۔ ’تصور سے بالاتر‘۔
ہم ٹی وی نیٹ ورک پر ایک سے بڑھ کر ایک شاندار ڈرامے پیش کرنے والی مومنہ درید اب ’چھوٹے اسکرین‘ سے ’بڑے اسکرین‘ پر براجمان ہونے والی ہیں۔ ’بن روئے‘ ان کی پہلی تخلیق ہے جو رواں برس عیدالفطر پر سنیماگھروں کی زینت بنے گی۔
اس تخلیق میں ان کے شانہ بشانہ چلنے والوں سے ایک ملاقات کے لئے ہی انہوں نے پیر کی شام ایک پرہجوم پریس کانفرنس منعقد کی جس میں فلم کے ہیرو اور ہیروئن یعنی ہمایوں سعید و مائرہ خان، جاوید شیخ اور ڈائریکٹر شہزاد کاشمیری کے ساتھ ساتھ دیگر کاسٹ اور کرئیو میں شامل اداکاروں کا تفصیلی تعارف پیش کیا۔
سلطانہ صدیقی
اس موقع پر ’ہم‘ کی روح رواں سلطانہ صدیقی بھی موجود تھیں۔ان کا کہنا تھا کہ ’ہم فلمز‘ کا قیام پچھلے سال عمل میں آیا تھا۔ اس بینر کے تحت ہم نے 2014ء میں فلم ’نامعلوم افراد‘ ڈسٹری بیوٹ کی جو سپرہٹ ہوئی۔ اب ہم چاہتے ہیں کہ خود بھی فلمیں بنائیں۔ اس کی ابتداء ہم ’مومنہ درین فلمز‘ کے بینر تلے بننے والی فلم ’بن روئے‘ سے کر رہے ہیں ۔ یہ مومنہ کی تخلیق کردہ پہلی فلم ہے۔ اس کی ڈسٹری بیوشن ہم صرف پاکستان میں ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں کریں گے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’مومنہ درید ہر کام بڑے دل، شوق اور پیار سے کرتی ہے، اس طرح کرتی ہے کہ خود کو بھی بھول جاتی ہے۔ ’بن روئے‘ پیار اور احساسات کی کہانی ہے اور مجھے امید ہے کہ یہ بہت پسند کی جائے گی۔ مائرہ اور ہمایوں تو بادشاہ ہیں جذبات کے۔ جاوید شیخ، زیبا بختیار اور باقی لوگوں نے بھی بہت محنت کی ہے۔ میری دعا ہے کہ آگے مزید اچھی فلمیں بنیں۔‘
مومنہ درید
فلم ’بن روئے‘ کی پروڈیوسر مومنہ درید نے کہا کہ ’بن روئے‘ ہم سب کی دو سالوں کی محنت کا ثمر ہے۔ اس دوران ہم بہت سے مشکل مرحلوں سے گزرے۔ یہ بہت مشکل سفر تھا۔ ایک امتحان تھا لیکن آج خوشی کے ساتھ یہاں کھڑے ہیں کہ ہم اس امتحان کو کرگزرے۔ ہارے نہیں ۔۔ فرحت اشتیاق ۔۔سب اس نام سے واقف ہیں۔ یہ امیوشن کی کوئن ہیں۔ ’ہمسفر‘ بھی ان کا ایک بلاک بسٹر سیریل تھا۔ بن روئے بھی انہی کا اسکرپٹ ہے۔‘
’فلم میں کئی گائے بھی شامل ہیں۔ جن میں سے دو گانوں کی ہدایات عاصم رضا اور سرمد سلطان نے دی ہیں۔آوازوں میں راحت فتح علی خان سب سے بڑا نام ہے۔‘
’اس کے علاوہ فلم میں کام کرنے کے لئے میں جن لوگوں کا شکریہ اداکرنا چاہوں گی ان میں عذرا منصور، عدیل حسین، جنید خان، فائزہ حسن، شیریں زاہد، فرحان عالم، ارمینہ خان، زیبا بختیار، عذرا آپا اور خاص کر شہزاد کاشمیری شامل ہیں۔‘
مومنہ نے شہزاد کے حوالے سے مزید بتایا ’شہزاد کاشمیری کو میں نے راتوں رات امریکہ سے فون کیا اور کہا اگلی فلائٹ سے اڑکر امریکہ چلے آوٴ تمہیں ’بن روئے‘ ڈائریکٹ کرنی ہے۔ میں بھی تمہارے ساتھ فلم ڈائریکٹ کروں گی۔ لیکن ہم شروع میں کسی کو نہیں بتائیں گے کہ فلم کی ڈائریکشن میں، میں بھی تمہارے ساتھ ہوں۔ شہزاد کا شکریہ کہ وہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر اگلی ہی فلائٹ سے امریکہ پہنچے اور میرے ساتھ رات رات بھر جاگ جاگ کر کام کیا۔ بن روئے ہم سب کی انہی محنتوں کا ثمر ہے۔‘
’بن روئے‘ بہت سے حوالوں سے پاکستان میں اب تک بننے والی فلموں سے مختلف ہوگی۔ یہ بھی توقع کی جارہی ہے کہ ’بن روئے‘ ملکی سینما انڈسٹری کیلئے بھی ایک نیا سنگ میل ثابت ہوگی۔ خاص کر ایسے موقع پر جبکہ فلم انڈسٹری ایک نیا جنم لے رہی ہے۔
پریس کانفرنس میں فلم کے ڈائریکٹر اور خاص کر ہیرو، ہیروئن کے علاوہ دیگر فنکاروں نے بھی فلم سے جڑے اپنے تجربات سب سے شیئر کئے جو انہی کے الفاظ میں پڑھئے:
شہزاد کاشمیری
میرے لئے ’بن روئے‘ بطور ڈائریکٹر کام سیکھنے کا’ بہترین تجربہ‘ ثابت ہوئی۔ شروع میں تھوڑی بہت گھبراہٹ محسوس ہوئی مگر پھر لگا ہی نہیں کہ پہلی دفعہ فلم کررہا ہوں۔ اس کی وجہ تھی ہماری ٹیم۔ انڈسٹری کے سب سے خوبصورت اسٹارز، ٹیکنیکل ایکسپرٹس، موسٹ کوالیفائیڈ ڈائریکٹر آف فوٹو گرافی یعنی فرحان عالم۔ بہت اسٹرونگ کونٹینٹ ۔۔اور سب سے بڑھ کر مومنہ جیسی ماہر پروڈیوسر۔
شہزاد نے تھوڑا سا وقفہ لیا تو مائرہ نے شہزاد سے مائیک جھپٹ لیااور میکنگ کے دوران پیش آنے والا ایک دلچسپ واقعہ سب سے شیئر کیا۔ ان کا کہنا تھا ’میں فلم کے ایک سین کو ایک خاص قسم کی لائٹ ’میجک آور‘ کے ذریعے شوٹ کرنا تھا۔ میں کمرے میں تھی کہ شہزاد بھاگتے ہوئے آئے اور گھبرائے ہوئے انداز میں مجھ سے بولے مائرہ میجک آور ریڈی ہے ۔۔ بس تمہیں اس کے سامنے کھڑا رہنا ہے ۔۔۔اور صرف میجک آور کو دیکھتے رہنا ہے ۔۔۔پلیز ۔۔۔پلیز جلدی سے کھڑی ہوجاوٴ۔۔۔‘
’میں نے ویسا ہی کیا جیسا شہزاد نے کہا تھا اور اس وقت میں حیران رہ گئی جو سین کے بعد شہزاد کو خلا ہی خلا میں ہگ کرتے دیکھا۔۔وہ دیوانہ وار ۔۔فلائنگ کس کررہے تھے۔۔۔۔اللہ میاں کو۔۔۔شکریہ بھرے انداز میں۔۔ساتھ ہی ساتھ وہ کہہ رہے تھے ۔۔۔بس اللہ میاں نے ہمارے لئے ہی یہ ٹائم لائے تھے۔۔۔۔اصل میں شہزاد سین کو باکمال انداز میں شوٹ کرنا چاہتے تھے اور اپنی کامیابی پر اللہ تعالیٰ کا شکر اداکرتے ہوئے بہت خوش اور پرجوش تھے۔یہ ان کا ہی حوصلہ ہے کہ فلم اتنے بہترین انداز میں ڈائریکٹ ہوئی۔‘
ہمایوں سعید
’فلم کی سب سے بڑی خاصیت اس کی اسٹرونگ کہانی ہے ۔ دوسری خاصیت یہ کہ اسے ملک کی بہترین پروڈیوسر نے بنایا ہے۔ مومنہ جتنی محنت اپنے ڈراموں میں کرتی ہیں اس سے کہیں زیادہ محنت انہوں نے اس فلم میں کی ہے۔فلم بنانا بہت مشکل اور ہمت کا کام ہے۔ جاوید شیخ صاحب، فضاعلی اور میں خود بھی فلم بناچکا ہوں۔ یہ اتنا کٹھن کام ہے کہ انسان ہرباریہی سوچتا ہے کہ ’توبہ خدا کی آئندہ نہیں بناؤں گا لیکن پھر جب لوگ آپ کا کام پسند کرتے ہیں تو خودبخود نئی فلم بنانے کا دل چاہتا ہے۔ مائرہ ، جاوید شیخ اور مجھ سمیت فلم سے جڑے ہر شخص نے بہت محنت کی ہے اس لئے اچھے رزلٹ کی امید ہے۔‘
جاوید شیخ
مومنہ نے پاکستانی ڈرامے کو ایک نئی جہت دی ہے ۔میں سمجھتا ہوں کہ اب ان کا فلموں کی طرف مائل ہونابڑے اسکرین پر انقلاب کا باعث ہوگا۔ میں گواہ ہوں بھارت میں پاکستانی ڈراموں کو کتنی پسندیدگی سے دیکھا جاتا ہے۔ لوگ بہت کریزی ہیں، دعوتوں میں نہیں جاتے بلکہ پاکستانی ڈرامے دیکھتے ہیں۔ ایک مرتبہ میں جہاز میں بیٹھا ہوا تھا کہ ایک لڑکی بھاگی بھاگی آئی اور بولی جاوید صاحب ۔۔جاوید صاحب ۔۔پاکستانی ڈراموں کے کیا کہنے ۔۔ ہم لوگوں نے اپنے ڈرامے دیکھنا بند کر دیئے ہیں۔ اب ہم صرف ایک ہی چینل دیکھتے ہیں ’زی زندگی‘ اور وہ بھی صرف پاکستانی ڈراموں کی وجہ سے۔‘
’اب مجھے امید ہے کہ مومنہ کی فلم ’بن روئے‘ پاکستان فلم انڈسٹری کا تصور ہی یکسر بدل کررکھ دے گی۔ یوں بھی 2014ء پاکستانی فلم انڈسٹری میں خواتین پروڈیوسرز کا سال تھا ۔ فضاعلی نے ’نامعلوم افراد‘ بنائی، زیبابختیار نے بھی ایک فلم بنائی اب مومنہ آئی ہیں ۔ ان خواتین نے ثابت کردیا ہے خواتین کیا کچھ کرسکتی ہیں۔ کامیابی محنتوں کا ثمر ہوتی ہے اور میں نے دیکھا ہے کہ ہمایوں اور مائرہ ایک ، ایک سین کیلئے ساری ساری رات کھڑے رہتے تھے۔ لائٹنگ کرواتے تھے، ڈائیلاگ یاد کرتے تھے۔ بارش، آندھی، طوفان سب کا انہوں نے سامنا کیا مگر کام نہیں چھوڑا۔ میں امید کرتا ہوں کہ جس طرح ہمارے ڈرامے پوری دنیا میں کامیاب اور مشہور ہیں ،اسی طرح ہماری فلمیں بھی پاکستان کا نام روشن کرنے کا باعث بنیں۔‘
مائرہ خان
’بول‘ میری پہلی فلم تھی لیکن ’بن روئے‘ میرے اور مومنہ کے درمیان کی ایک لو اسٹوری ہے فلم کہانی سننے کے دن سے اب تک میں ان کے ساتھ ہوں۔اس دوران کام میں بہت مزا آیا، بہت سی مشکلات بھی آئیں۔ اگر ہم نے بائیس ، بائیس گھنٹے کام کیا تو مومنہ نے 26۔26 گھنٹے مسلسل کام کیا ہوگا۔ یہ کھڑی رہتی تھیں ،ہم لوگ بیٹھ جاتے تھے۔ سو جاتے تھے۔ ہم کہاں کہاں نہیں سوئے۔ میں تو ایک کونے میں جاکر ہر جگہ 10 منٹ کی نیند لے لیتی تھی مگر مومنہ کھڑی رہتی تھیں۔‘
’اکثر ہمایوں سعید کے گھر سے کھانا بن کرآتا تھا اور جاوید شیخ صاحب سیٹ پر گول گپے تک لے آتے تھے۔ بڑا مزا آتا تھا ہم لوگ ایک فیملی کی طرح رہتے تھے۔ میں نے ایک اور فلم کی اور ایک فلم ابھی ختم کر کے پاکستان آئی ہوں لیکن ’بن روئے‘ سے ایسی اٹیچ ہوں کہ علیحدگی کا خوف ہی ڈرا جاتا ہے۔ میں امید کرتی ہوں کہ آپ سب لوگ انجوائے کریں گے۔ اس میں رونا دھونا، مصالحہ، میوزک، جذبات اور وہ سب کچھ ہے جو ایک اچھی اور انٹرٹیمنٹ فلم میں ہوتا ہے۔اس لئے اس عید کا مزا دوبالا کریں اور ’بن روئے‘ سے انجوائے کریں۔‘