واشنگٹن —
قسمت کی خوبی دیکھئے کہ یہ قرعہ ٴ فال اِس غریب پُر حقیر کے نام نکل آیا جسے نہ کوئی جانتا تھا نہ پہچانتا تھا، بلکہ لوگوں کو یہ بھی معلوم نہ تھا کہ یہ رہتا کہاں ہے؟
ہم تو جناب خبریں پڑھتےتھے صرف پانچ منٹ کی اور کبھی موسم کا حال یا پھر پسِ پردہ فلموں کی کومنٹری۔
لیکن، جناب ہوا یہ کہ چند روز پہلے ہی اسلم اظہر صاحب، جو کراچی ٹی وی کے جنرل منیجر تھے اور بھٹو کے دوست بھی، اُنہیں بھٹو نے وزیرِ اعظم بنتے ہی ترقی دے کر ٹی وی کا منیجنگ ڈائریکٹر بنا دیا تھا۔
وہ اُن دِنوں سٹیشن پر ہر شعبے کا معائنہ کرتے نظرآتے اور لوگوں کی ڈانٹ ڈپٹ بھی کرتے جاتے اصلاحِ احوال کے لیے۔
میں شام کی خبریں پڑھنے سٹوڈیو میں داخل ہوا تو دیکھا اسلم صاحب کنٹرول پینل پر بیٹھے عملے کو ہدایات دے رہے تھے۔
بس اپنی تو جان ہی نکل گئی کہ خالد صاحب آج سمجھ لیں کہ یہ آپکی آخری خبریں ہیں۔
سمجھو چھٹی ہوگئی، کیونکہ میں سن چکا تھا کہ ابھی ابھی کچھ خاتون اناؤنسروں اور انگریزی خبریں پڑھنے والوں کی اُنھوں نے خاصی کھچائی کی ہے۔ اُن کی کرسی کے پیچھے سٹیشن کے جنرل منیجر، فیاض الحق مرحوم کھڑے تھے۔ ایک پیارے ہمدرد اور مخلص انسان۔ ٹی وی نیوز میں میرا داخلہ اُن ہی کے توسط سے ہوا تھا۔ وہ بھی دلچسپ قصہ ہے۔ بعد میں کبھی سناؤں گا۔
آڈیو رپورٹ سننے کے لیے کلک کیجیئے:
تو جناب فیاض صاحب مجھے دیکھ کر مسکرائے۔ شایدوہ میرے خوف کو بھانپ گئے تھے۔ میں نے اُنھیں سلام کیا اور اسلم صاحب کی طرف منہ کیے بغیر تیزی سے سٹوڈیو میں داخل ہوگیا۔
جو لوگ اسلم صاحب کو جانتے ہیں وہ میری اِس کیفیت کا اندازہ کرسکتے ہیں، کیونکہ وہ ایک بھاری بھرکم کم آواز اور رعب دار شخصیت کے مالک تھے اور خاص طور وہ جب شیکسپئر کے تھئیٹر والی گرجدار آواز میں انگریزی بولتے تو اچھے اچھے لوگ چوکڑی بھول جاتے۔میں ٹھہرا کالج کا پہلے سال کا طالبعلم۔
غرض میں نے اپنی کرسی سنبھالی،خبروں پر ایک آخری نظر ڈالی کہ کوئی غلطی نہ ہو جائے،اور دل ہی دل میں تمام سورتیں اور درود شریف پڑھ ڈالا کہ کسی صورت اس مشکل سے نکل جاؤں۔
خبروں کا ابتدائ میوزک بجا، کیمرے کی سرخ بتّی روشن ہوئ اور ہم نے جیسے کیسے خبریں شروع کر دیں۔ کچھ یاد نہیں کیا پڑھا، کیسے پڑھا، بس شکر ہے کوئی بڑا گَھپلا نہیں ہوا۔
پسینہ پوچھتے باہر نکلے تو دیکھا اسلم صاحب کنٹرول روم سے باہر جا رہے ہیں۔شکر ادا کیا کہ سامنا نہیں ہوا۔
لیکن، انکے پیچھے فیاض صاحب تھےجنہوں نے مجھے دیکھا تو اسلم صاحب کو متوجہّ کرتے ہوئے کہا Sir یہ خالد۔۔
اسلم صاحب فوراًٍٍ پیچھے مڑے، مجھے دیکھا اور بڑی گرمجوشی سے ہاتھ ملانے کیلئے بڑھایا اور کہاWell done Khalid ،آپ بہت اچھی خبریں پڑھتے ہیں،But, never change your style اسی طرح relaxed style رکھیں،شاباش۔Keep it up۔
وہ یہ کہہ کر قدم بڑھاتے نیوز روم کی طرف چلے گئے اور فیاض صاحب نے اپنے انگوٹھے سے مجھے ’ویری گڈ‘ کا
اشارہ دیا اور وہ بھی پیچھے پیچھے چل دئے اور میں حیران کھڑا سوچتا رہا کہ خواب ہے کہ حقیقت۔
گم ُسمُ ۔ میک اپ روم میں واپس آیا اور کرسی پر کافی دیرآنکھیں بند کرکے، نیم دراز ہوگیاکہ اے خدا ، تو عظیم ہے۔
واپس نیوز روم پہنچا تو سب لوگ مسکرا کر دیکھ رہے تھے۔ پتہ یہ لگا کہ ایم ڈی نیوز روم میں آئے تھے،خبروں کے متعلق پوچھا اور پھر یہ بھی کہ کون کون خبریں پڑھتا ہے۔
اور ساتھ ہی کہا یہ یہ لڑکا کون ہے جو ابھی خبریں پڑھ رہا تھاHe is damn good۔ آپ اُس سے خبرنامہ کیوں نہیں پڑھواتے۔بس پھر کیا تھا اپنی لاٹری نکل آئی۔
نیوزایڈیٹر مشتاق صاحب تھے، جو مشرقی پاکستان سے تھے اور بنگلہ دیش بننے کہ بعد وہاں چلے گئے۔بہت دھیما بولتے تھے۔ انہوں نےبلایا اور کہا کہ ، ’میاں آپ تیاری کریں خبرنامے کی۔آپ سے خبرنامہ پڑھواتے ہیں‘۔
مجھے خاموش دیکھ کر انہوں نے کہا: ’کیا بات ہے ،تم کو خوشی نہیں ہوئی؟‘
میں نے کہا، جی یقین آئے تو کچھ بولوں۔
غرض اِس طرح فروری 1972ءمیں پہلا خبرنامہ پڑھا۔
ہم تو جناب خبریں پڑھتےتھے صرف پانچ منٹ کی اور کبھی موسم کا حال یا پھر پسِ پردہ فلموں کی کومنٹری۔
لیکن، جناب ہوا یہ کہ چند روز پہلے ہی اسلم اظہر صاحب، جو کراچی ٹی وی کے جنرل منیجر تھے اور بھٹو کے دوست بھی، اُنہیں بھٹو نے وزیرِ اعظم بنتے ہی ترقی دے کر ٹی وی کا منیجنگ ڈائریکٹر بنا دیا تھا۔
وہ اُن دِنوں سٹیشن پر ہر شعبے کا معائنہ کرتے نظرآتے اور لوگوں کی ڈانٹ ڈپٹ بھی کرتے جاتے اصلاحِ احوال کے لیے۔
میں شام کی خبریں پڑھنے سٹوڈیو میں داخل ہوا تو دیکھا اسلم صاحب کنٹرول پینل پر بیٹھے عملے کو ہدایات دے رہے تھے۔
بس اپنی تو جان ہی نکل گئی کہ خالد صاحب آج سمجھ لیں کہ یہ آپکی آخری خبریں ہیں۔
سمجھو چھٹی ہوگئی، کیونکہ میں سن چکا تھا کہ ابھی ابھی کچھ خاتون اناؤنسروں اور انگریزی خبریں پڑھنے والوں کی اُنھوں نے خاصی کھچائی کی ہے۔ اُن کی کرسی کے پیچھے سٹیشن کے جنرل منیجر، فیاض الحق مرحوم کھڑے تھے۔ ایک پیارے ہمدرد اور مخلص انسان۔ ٹی وی نیوز میں میرا داخلہ اُن ہی کے توسط سے ہوا تھا۔ وہ بھی دلچسپ قصہ ہے۔ بعد میں کبھی سناؤں گا۔
آڈیو رپورٹ سننے کے لیے کلک کیجیئے:
تو جناب فیاض صاحب مجھے دیکھ کر مسکرائے۔ شایدوہ میرے خوف کو بھانپ گئے تھے۔ میں نے اُنھیں سلام کیا اور اسلم صاحب کی طرف منہ کیے بغیر تیزی سے سٹوڈیو میں داخل ہوگیا۔
جو لوگ اسلم صاحب کو جانتے ہیں وہ میری اِس کیفیت کا اندازہ کرسکتے ہیں، کیونکہ وہ ایک بھاری بھرکم کم آواز اور رعب دار شخصیت کے مالک تھے اور خاص طور وہ جب شیکسپئر کے تھئیٹر والی گرجدار آواز میں انگریزی بولتے تو اچھے اچھے لوگ چوکڑی بھول جاتے۔میں ٹھہرا کالج کا پہلے سال کا طالبعلم۔
غرض میں نے اپنی کرسی سنبھالی،خبروں پر ایک آخری نظر ڈالی کہ کوئی غلطی نہ ہو جائے،اور دل ہی دل میں تمام سورتیں اور درود شریف پڑھ ڈالا کہ کسی صورت اس مشکل سے نکل جاؤں۔
خبروں کا ابتدائ میوزک بجا، کیمرے کی سرخ بتّی روشن ہوئ اور ہم نے جیسے کیسے خبریں شروع کر دیں۔ کچھ یاد نہیں کیا پڑھا، کیسے پڑھا، بس شکر ہے کوئی بڑا گَھپلا نہیں ہوا۔
پسینہ پوچھتے باہر نکلے تو دیکھا اسلم صاحب کنٹرول روم سے باہر جا رہے ہیں۔شکر ادا کیا کہ سامنا نہیں ہوا۔
لیکن، انکے پیچھے فیاض صاحب تھےجنہوں نے مجھے دیکھا تو اسلم صاحب کو متوجہّ کرتے ہوئے کہا Sir یہ خالد۔۔
اسلم صاحب فوراًٍٍ پیچھے مڑے، مجھے دیکھا اور بڑی گرمجوشی سے ہاتھ ملانے کیلئے بڑھایا اور کہاWell done Khalid ،آپ بہت اچھی خبریں پڑھتے ہیں،But, never change your style اسی طرح relaxed style رکھیں،شاباش۔Keep it up۔
وہ یہ کہہ کر قدم بڑھاتے نیوز روم کی طرف چلے گئے اور فیاض صاحب نے اپنے انگوٹھے سے مجھے ’ویری گڈ‘ کا
اشارہ دیا اور وہ بھی پیچھے پیچھے چل دئے اور میں حیران کھڑا سوچتا رہا کہ خواب ہے کہ حقیقت۔
گم ُسمُ ۔ میک اپ روم میں واپس آیا اور کرسی پر کافی دیرآنکھیں بند کرکے، نیم دراز ہوگیاکہ اے خدا ، تو عظیم ہے۔
واپس نیوز روم پہنچا تو سب لوگ مسکرا کر دیکھ رہے تھے۔ پتہ یہ لگا کہ ایم ڈی نیوز روم میں آئے تھے،خبروں کے متعلق پوچھا اور پھر یہ بھی کہ کون کون خبریں پڑھتا ہے۔
اور ساتھ ہی کہا یہ یہ لڑکا کون ہے جو ابھی خبریں پڑھ رہا تھاHe is damn good۔ آپ اُس سے خبرنامہ کیوں نہیں پڑھواتے۔بس پھر کیا تھا اپنی لاٹری نکل آئی۔
نیوزایڈیٹر مشتاق صاحب تھے، جو مشرقی پاکستان سے تھے اور بنگلہ دیش بننے کہ بعد وہاں چلے گئے۔بہت دھیما بولتے تھے۔ انہوں نےبلایا اور کہا کہ ، ’میاں آپ تیاری کریں خبرنامے کی۔آپ سے خبرنامہ پڑھواتے ہیں‘۔
مجھے خاموش دیکھ کر انہوں نے کہا: ’کیا بات ہے ،تم کو خوشی نہیں ہوئی؟‘
میں نے کہا، جی یقین آئے تو کچھ بولوں۔
غرض اِس طرح فروری 1972ءمیں پہلا خبرنامہ پڑھا۔