اسلام آباد —
سلامتی کے خدشات، توانائی کے بحران، مہنگائی کے عفریت اور ایسی ہی کئی دیگر پریشانیوں میں الجھے ’’سخت جان پاکستانی عوام‘‘ کو خوشی کی کوئی خبر میسر نہیں۔ اور اگر کوئی نوید ملتی بھی ہے تو وہ بھی کھیل کے میدان سے ورنہ ملک کے سیاسی میدانوں میں تو انتخابات کے آئینی و غیر آئینی، سیاست اور ریاست بچانے کی رسہ کشی اور ایک دوسرے کے میلے کپڑے چوک میں دھونے جیسی خبریں وقتی تفریح تماشے کا کام کررہی ہیں۔
اس سارے طرفہ تماشے میں منظر خوں بستہ بھی بدرجہ اتم موجود ہے۔ کہیں قوم کے مستقبل کو اپاہج ہونے سے بچانے والی رضا کار خواتین خود موت کی گولی کھا بیٹھتی ہیں تو کہیں کوئی لاش بوری میں سوئی ملتی ہے اور دہشت گردی کے خلاف آواز بلند کرنے والے اسی کا نشانہ بن کر خاموشی کی چادر اوڑھ لیتے ہیں۔
انتہا پسندوں اور دہشت گردوں کے ہاتھوں زندگی کا دامن بچانے والے بھی بغلیں نہیں بجا سکتے کہ ان کے لیے زیست کے اور امتحاں باقی ہیں۔ کبھی مسیحاؤں کی بے حسی ہڑتال کی صورت تو کہیں ’’جعلی ادویات‘‘ ان کے راستے میں حائل ہو جاتی ہیں۔
’’جمہوریت کے اس عنفوان شباب‘‘ سے چند سال قبل لوگ آٹے اور چینی کی قطاروں میں کھڑے رہتے تھے اور اب جمہوریت کے حسن سے چندھیا جانے والی آنکھوں کے ساتھ سی این جی کی لائنوں میں کھڑے ہیں۔ خیر سی این جی تو ویسے ہی عنقا ہوئی اور اسٹیشن مالکان نے ہڑتال کا ڈنکا بجا دیا مگر اب تو حالِ دل افگار یہ ہو چلا ہے کہ آٹا تو ہے مگر اس سے روٹی پکانے کے لیے گیس نہیں ہے۔
اس سارے شور ہائے ہو میں آواز آتی ہے کہ ملک میں گیس کے وسیع ذخائر ہیں، کوئی اس کی کم یابی کا بگل بجا بجا کر اپنی سانس پھلائے دیتا ہے اور کوئی ٹاں ٹوں کرتی گاڑیوں کے جلو میں اپنے کسی حلقے میں کم یاب اور عدم دستیاب گیس کی فراہمی کے منصوبے کا افتتاح کرتا نظر آتا ہے۔
حیرت سے دیدے تو پہلے ہی پھٹے پڑے ہیں لیکن سنا ہے حیرتوں سے آگے بھی ایک جہان ہے۔
اس سارے طرفہ تماشے میں منظر خوں بستہ بھی بدرجہ اتم موجود ہے۔ کہیں قوم کے مستقبل کو اپاہج ہونے سے بچانے والی رضا کار خواتین خود موت کی گولی کھا بیٹھتی ہیں تو کہیں کوئی لاش بوری میں سوئی ملتی ہے اور دہشت گردی کے خلاف آواز بلند کرنے والے اسی کا نشانہ بن کر خاموشی کی چادر اوڑھ لیتے ہیں۔
انتہا پسندوں اور دہشت گردوں کے ہاتھوں زندگی کا دامن بچانے والے بھی بغلیں نہیں بجا سکتے کہ ان کے لیے زیست کے اور امتحاں باقی ہیں۔ کبھی مسیحاؤں کی بے حسی ہڑتال کی صورت تو کہیں ’’جعلی ادویات‘‘ ان کے راستے میں حائل ہو جاتی ہیں۔
’’جمہوریت کے اس عنفوان شباب‘‘ سے چند سال قبل لوگ آٹے اور چینی کی قطاروں میں کھڑے رہتے تھے اور اب جمہوریت کے حسن سے چندھیا جانے والی آنکھوں کے ساتھ سی این جی کی لائنوں میں کھڑے ہیں۔ خیر سی این جی تو ویسے ہی عنقا ہوئی اور اسٹیشن مالکان نے ہڑتال کا ڈنکا بجا دیا مگر اب تو حالِ دل افگار یہ ہو چلا ہے کہ آٹا تو ہے مگر اس سے روٹی پکانے کے لیے گیس نہیں ہے۔
اس سارے شور ہائے ہو میں آواز آتی ہے کہ ملک میں گیس کے وسیع ذخائر ہیں، کوئی اس کی کم یابی کا بگل بجا بجا کر اپنی سانس پھلائے دیتا ہے اور کوئی ٹاں ٹوں کرتی گاڑیوں کے جلو میں اپنے کسی حلقے میں کم یاب اور عدم دستیاب گیس کی فراہمی کے منصوبے کا افتتاح کرتا نظر آتا ہے۔
حیرت سے دیدے تو پہلے ہی پھٹے پڑے ہیں لیکن سنا ہے حیرتوں سے آگے بھی ایک جہان ہے۔