واشنگٹن کئی حوالوں سے علم اور تحقیق کا ڈسپلے سینٹربھی ہے ۔یہاں دنیا کے ہر ملک سے علم حاصل کرنے والے انسانی ترقی کے منصوبے لے کر بات چیت کی نشستوں پر اکٹھے ہوتے ہیں ۔ جنہیں سننے والوں میں تحقیق اورامدادی اداروں سے وابستہ ، ایسے پڑھنے لکھنے والے افراد شامل ہوتے ہیں ، جو اپنی کسی ریسرچ کو نیا رخ دینے کے لئے ماہرین کی گفتگو سننے آتے ہیں ۔
لیکن اس شہر میں ایسے ’’ماہرین‘‘ کی بھی کمی نہیں ، جو ایک دو بار پاکستان کو ہاتھ لگا کر آئے ہیں،جنہوں نے ایک آدھی کتاب پاکستان پر لکھی ہے،جوکبھی کسی بین الاقوامی ادارے کی طرف سے پاکستان میں تعینات رہے ۔۔اوراب تھنک ٹینکس کی دوکانیں آباد ہونے کے بعد پاکستانیات کے ایکسپرٹ مانے جاتے ہیں ۔۔ایسے دانشوروں کا وزن تولنابھی اس شہر میں کئی لوگوں کے لئے ایک دلچسپ مشغلہ ہے ۔
اسی شہر کے ایک ادارے ووڈرو ولسن سینٹرفار سکالرز کی ایک نشست کے دوران ایک برطانوی پروفیسر کی کچھ ایسی باتیں سننے کو ملیں ، جنہیں اپنے 13 سالہ صحافتی سفر کے دوران مجھے پہلے کبھی سننے کا اتفاق نہیں ہوا تھا ۔ اسی لئے حیرت کی زیادتی پر قابو پانے میں مجھےکچھ مشکل پیش آئی ۔۔ میرے اندازے غلط ثابت ہو گئے تھے ۔
پروفیسر کوئی بزرگ آدمی نہیں تھا۔۔ لیکن یہ واضح تھا کہ وہ پاکستان کی ان تمام dynamics سے واقف ہے۔ جنہیں بہت محتاط انداز میں بھی بھول بھلیاں ہی کہا جاسکتا ہے ۔ وہی مانوس بھول بھلیاں، جن میں ہم۔۔۔۔ پاکستان میں پیدا ہونے، پرورش پانے ، اور زندگی گزار کر بیرون ملک آنے والے بھی اکثر اپنا راستہ تلاش نہیں کر پاتے ۔۔۔۔۔ وہی بھول بھلیاں ، جن میں جواب کم اور سوال زیادہ ہیں ۔
’’یہ تو سچ مچ پاکستان کو جانتا ہے ‘‘۔۔میں نے اپنے برابر بیٹھے پاکستانی صحافی سے کہا ، جو ایک صحافتی فیلو شپ پر امریکہ میں تھا ۔ وہ دھیما سا مسکرایا ۔اور بڑی قناعت سے بولا ۔“ہم تو ایسی باتیں خواب میں بھی نہیں سوچتے ۔‘‘
صحافی پاکستان کی ایک اقلیتی برادری کا رکن بھی تھا ۔ میں نے اس کی بات سنی، اپنا کاغذ قلم سیدھا کیا ، اور پروفیسر کی گفتگو کے نوٹس لینے لگی ۔ میں جانتی تھی، میں جو سن رہی ہوں ، اسے واپس دفتر جاکر کسی ٹی وی سٹوری کی شکل دینا مشکل ہوگا۔۔ پھر بھی میں ایسا کر رہی تھی ۔۔ پروفیسر کی باتوں کو کوئی کتنے بھی شک کی گنجائش دے کر سنتا ، ان میں کچھ نہ کچھ تھا ، جو کڑوے بادام جیسا تلخ ، مگرکہیں نہ کہیں سچا ہوتا ہے ۔
پروفیسر نے بتایا کہ وہ اسلام میں قوانین وراثت اور جائیداد کے معاملوں پرتحقیق کر رہا تھا، کہ اسے اسلام اور پاکستان کے تعلق میں دلچسپی پیدا ہوئی اور اس نے یہ جائزہ لینا چاہا کہ لوگ اچھے مسلمان کیسے بنتے ہیں؟ تب اسے پہلی بار پتہ چلا کہ مسلمان اپنی طرز مسلمانی میں ایک دوسرے سے کتنے مختلف ہیں۔۔ اور اسلام میں کس قدر تنوع پایا جاتا ہے۔۔ پھر اسے یہ جاننے کا تجسس پیدا ہوا کہ مسلمان برادری اپنے اتحاد کو قائم رکھ کر بھی کیسے یہ نہیں بھولتی کہ ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان سے فرق کیا ہے؟
اس تجسس نے اسے ایک تحقیق پر آمادہ کیا۔۔ یہ تحقیق اسے پاکستان لے گئی۔ اس نے سوالنامہ مرتب کیا اور پاکستان کے کچھ شہروں اور قصبوں میں عام لوگوں، پرائیوٹ اور سرکاری سکولوں کے اساتذہ سے کچھ سوال کئے۔۔۔۔ جیسے کہ، کیا آپ اپنے آپ کو صرف مسلمان سمجھتے ہیں یا سنی، شیعہ یا کسی اور فرقے کا مسلمان؟
کیا سکولوں میں پڑھائی جانے والی دینیات میں فِرقوں کا فرق واضح کیا گیا ہے؟ اور اسی نوعیت کے کچھ اور سوال ۔
پروفیسراور اس کی ٹیم نے اپنے کیمرے پر لوگوں کے جو جوابات ریکارڈ کئے، ان پر مبنی مختصر دورانیئے کی ایک فلم گفتگو کی اس نشست میں دکھائی گئی۔۔
فلم میں ایک سرکاری سکول کے استاد کا یہ جواب بھی شامل تھا کہ، ’’ سکولوں میں پڑھائی جانے والی دینیات میں ایسا کوئی مواد شامل نہیں، جس سے ایک مسلمان کو پتہ چلے کہ اس کے اور دوسرے مسلمان کے درمیان کیا فرق ہے کیونکہ مسلکی اختلاف کو واضح کرنے والا، تفرقہ پھیلانے والا علم ، بچوں کے ذہنوں پر برا اثر ڈالے گا۔‘‘
اس پر نشست میں شریک دیگر پاکستانیوں نے وہی سوال کیا، جو میرے ذہن میں بھی تھا کہ ایک غیر ملکی پروفیسر کو پاکستان جاکر ایسے سوال اٹھانے کی ضرورت کیا تھی۔؟
پروفیسر نے کہا ، ’’مسئلے کا پتہ لگانے کے لئے اس کی جڑ تلاش کرنی پڑتی ہے۔‘‘
پروفیسر میتھیو نیلسن نے جو کچھ مجھے بعد میں اپنے انٹرویو میں بتایا، وہ میں اپنے اس بلاگ میں شامل کرنے کی کوشش کر رہی ہوں۔
پروفیسر نے کہا۔ ’’بحیثیت ایک قوم ،پاکستان کے وجود میں آنے کے ساتھ ہی یہ سوال پیدا ہو چکا تھا کہ اگر یہ ملک مسلمانوں کے لئے قائم کیا گیا ہے تو کون سے مسلک کے مسلمانوں کے لئے؟۔۔ یہ مسئلہ نومبر 1947میں یعنی پاکستان کے قیام کے صرف دو مہینے بعد ایک ایجوکیشن کانفرنس میں زیر ِغور آیا تھا ۔ کانفرنس کے شرکاء کو پاکستان کے مشرقی اور مغربی حصے میں پائے جانےو الے تنوع کا اندازہ تھا، لیکن زیادہ تر بنگالی، بلوچی، سندھی اور پشتونوں کے فرق پر غور کیا جا رہا تھا۔۔۔ اور سوچا جا رہا تھا کہ زبان اور علاقے کے تنوع کے ساتھ لوگوں کو کسی مشترکہ مقصد کے گرد متحد کرنا ضروری ہے ۔اس کانفرنس میں سوچا گیا کہ یہ مشترکہ مقصد اسلام ہی ہو سکتا ہے ۔ کانفرنس کا انعقاد کروانے والے وزیر تعلیم فضل الرحمن نے، جن کا تعلق مشرقی پاکستان سے تھا، کہا کہ ملک میں ایک ایسے نظریہ پاکستان کو فروغ دیا جائے گا ، جس کے تانے بانے اسلام کے گرد بنے جائیں گے ، لیکن جب اسلام کے گرد بنے جانے والے اس نظریہ پاکستان کی شکل واضح ہونا شروع ہوئی ، تو اس نے ریاست کے لئے ایک چیلنج پیدا کر دیا ۔ اس کانفرنس میں طے کیا گیا تھا کہ ریاست تعلیمی نظام میں اسلامیات کو فروغ دے گی اور کسی فرقہ واریت یا مذہبی تعصب کی حوصلہ شکنی کی جائے گی۔‘‘
’’یعنی اس ایجو کیشن کانفرنس کے شرکاء کو بھی ’’وہ کون سا والا اسلام ہوگا‘‘ والا سوال درپیش تھا۔۔۔ یعنی ایک اسلام۔۔ پاکستانی اسلام۔۔۔ اور انہیں یہ احساس ہو گیا تھا کہ پاکستان میں ایک طرح کا مسلمان ہونا کئی حوالوں سے بے حد مشکل ہے۔۔۔ یہ بات اب بہت سے لوگوں کو یاد نہیں ہے‘‘۔۔ میتھیو نیلسن نے کہا، ’’لیکن پاکستان آج تک اسی مسئلے سے نمٹنے کی کوشش کر رہا ہے۔ 1970 کی دہائی میں ایک اسلام کے ایسے ہی نعرے افغانستان میں سوویت یونین سے لڑنے میں کار آمد ثابت ہوئے۔۔ کچھ لوگوں کو یہ بات کسی حد تک یاد بھی ہے لیکن وہ اس کا پس منظر بھول چکے ہیں۔‘‘
میتھیو نیلسن کا کہنا تھاکہ پاکستان کا اصل چیلنج اس کے تعلیمی نظام میں ہے۔ زیادہ تر طالبعلم سرکاری یا نجی سکول میں اسلامیات کی ٹیکسٹ بک پڑھتے ہیں، مدرسے جاتے ہیں یا قرآن حفظ کرنے کے لئے کسی مولانا صاحب کی خدمات حاصل کرتے ہیں۔ مگر ان تمام طریقوں سے حاصل ہونے والی تعلیم کا سارا زور طالب علم کو اسلام کی اہمیت سکھانے پر ہے۔
’’چیلنج تب پیدا ہوتا ہے ۔‘‘۔۔میتھیو نیلسن نے دوبارہ کہنا شروع کیا ۔’’جب لوگ اچھا مسلمان بننے کی اہمیت پہچان لیتے ہیں، اور پھر انہیں پتہ چلتا ہے کہ اچھا مسلمان بننے کے طریقے ایک سے زیادہ ہیں۔ پھر انہیں یہ فکر ہوتی ہے کہ وہ کیسے اپنی کمیونٹی کو ویسا مسلمان بنائیں، جیسے وہ خود ہیں۔ اور جب ہر شخص اپنے انداز کا اسلام معاشرے پر لاگو کرنے کا سوچتا ہے تو ایک اسلام کئی حصوں میں خود بخود بٹ جاتا ہے ۔ یہی پاکستان کا چیلنج ہے۔‘‘
لیکن ہر مسئلے کا کوئی حل بھی تو ہوتا ہے؟ یہ کیسے ممکن ہے کہ سوال موجود ہوں اور جواب نہیں؟ میتھیو نیلسن نے سوال کے مکمل ہونے کا انتظار نہیں کیا ۔۔میں اب تک ان کے جواب کو سمجھنے کی کوشش کر رہی ہوں ۔
’’میرے خیال میں پاکستان کو اسلام سے الگ کرنا مشکل ہے۔ اسلام میں ہر طرح کے نظریات کی جگہ ہو، ایسا سوچنا بھی شاید اتنا آسان نہیں۔ لیکن پاکستان کا آئین ایک زندہ دستاویز ہے، ہزاروں سال پہلے پتھر پرکندہ کی گئی تحریر نہیں۔۔۔۔ آئین، جس میں تعصب کی حوصلہ شکنی کی گئی ہو ، اپنے اس پڑوسی کو سمجھنے پر زور دیا گیا ہو، جو شائد آپ سے مختلف ہو ، اورجب آپ اسے (اپنے پڑوسی کو) سمجھنے کی کوشش کریں گے تو کسی غلط فہمی کا شکار نہیں ہونگے ۔ مگر اس وقت پاکستانی آئین یہ کہتا ہے کہ فرقہ واریت کی حوصلہ شکنی کرنی چاہئے، اس لئے مسلک کے فرق کو نظر انداز کرنا ہی مناسب ہے۔ جبکہ میرے خیال میں فرقہ واریت کو ختم کرنے کے لئے مسلک کے فرق کو نظر انداز کرنا ضروری نہیں، اس کے بارے میں سمجھ بوجھ بڑھانے اور اس کی اہمیت سمجھانے کی ضرورت ہے۔ پاکستان میں اب ایسے لوگ تلاش کرنا مشکل ہیں، جو کہتے ہوں کہ مسلک کے فرق سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ جو سمجھتے ہیں کہ مسلک کے فرق کو تسلیم کرنے سے مسلکی اختلافات بڑھیں گے۔ لیکن ہمیں یہ سوچنا ہوگا کہ مسلکی فرق کو واضح نہ کرنے سے، ایک ہی طرح کی سوچ پر اصرار کرنے سے، فرقہ ورانہ نفرت کو ہوا ملتی ہے۔۔جیسے ہی آپ کہتے ہیں ، صرف ایک مسلک۔۔ تو سوال آتا ہے کہ کون سا والا ؟‘‘
ڈاکٹر میتھیو نیلسن یونیورسٹی آف لندن سے وابستہ ہیں۔ یونیورسٹی کی ویب سائٹ پر پاکستان، افغانستان، بنگلہ دیش اور بھارت کو ان کی تحقیق کے خاص شعبے قرار دیا گیا ہے۔ ان کی کتاب،
In the Shadow of Sharia: Islam, Islamic Law, and Democracy in Pakistan
کو 2011 میں نیویارک کے کولمبیا یونیورسٹی پریس اور لندن کے ہرسٹ اینڈ کو نے شائع کیا جبکہ 2010 میں وہ پاکستان اور بھارت میں مسلمانوں کے قوانین ِوراثت، پاکستان میں دینی تعلیم اور جمہوریت کا چیلنج اور مسلمان مارکیٹس اور پاکستان میں اچھی تعلیم کے موضوعات پر کچھ اہم کتابوں کے لئے مضامین تحریر کر چکے ہیں۔
اب آپ کا جی چاہے تو بھلے، میتھیو نیلسن کو پاکستان کے’’اندرونی‘‘ معاملات پر رائے زنی کا شوقین مغربی دانشور قرار دے لیں۔۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کل جب میں اپنا فیس بک کھولوں تو میری نیوز فیڈ، پروفیسر کے مبینہ طور پر آسمانی بجلی سے بھسم ہوجانے والے مکان کی تصویروں سے بھری پڑی ہو۔۔۔ پھر بھی میں پروفیسر کی گفتگو میں آپ کو شریک کرناچاہتی ہوں۔
دیر سے سہی ۔۔ ایک منٹ کے لئے سہی ۔۔۔۔ تجرباتی طور پر ہی سہی ۔۔۔۔۔ سوچنے میں کیا حرج ہے ؟
لیکن اس شہر میں ایسے ’’ماہرین‘‘ کی بھی کمی نہیں ، جو ایک دو بار پاکستان کو ہاتھ لگا کر آئے ہیں،جنہوں نے ایک آدھی کتاب پاکستان پر لکھی ہے،جوکبھی کسی بین الاقوامی ادارے کی طرف سے پاکستان میں تعینات رہے ۔۔اوراب تھنک ٹینکس کی دوکانیں آباد ہونے کے بعد پاکستانیات کے ایکسپرٹ مانے جاتے ہیں ۔۔ایسے دانشوروں کا وزن تولنابھی اس شہر میں کئی لوگوں کے لئے ایک دلچسپ مشغلہ ہے ۔
اسی شہر کے ایک ادارے ووڈرو ولسن سینٹرفار سکالرز کی ایک نشست کے دوران ایک برطانوی پروفیسر کی کچھ ایسی باتیں سننے کو ملیں ، جنہیں اپنے 13 سالہ صحافتی سفر کے دوران مجھے پہلے کبھی سننے کا اتفاق نہیں ہوا تھا ۔ اسی لئے حیرت کی زیادتی پر قابو پانے میں مجھےکچھ مشکل پیش آئی ۔۔ میرے اندازے غلط ثابت ہو گئے تھے ۔
پروفیسر کوئی بزرگ آدمی نہیں تھا۔۔ لیکن یہ واضح تھا کہ وہ پاکستان کی ان تمام dynamics سے واقف ہے۔ جنہیں بہت محتاط انداز میں بھی بھول بھلیاں ہی کہا جاسکتا ہے ۔ وہی مانوس بھول بھلیاں، جن میں ہم۔۔۔۔ پاکستان میں پیدا ہونے، پرورش پانے ، اور زندگی گزار کر بیرون ملک آنے والے بھی اکثر اپنا راستہ تلاش نہیں کر پاتے ۔۔۔۔۔ وہی بھول بھلیاں ، جن میں جواب کم اور سوال زیادہ ہیں ۔
’’یہ تو سچ مچ پاکستان کو جانتا ہے ‘‘۔۔میں نے اپنے برابر بیٹھے پاکستانی صحافی سے کہا ، جو ایک صحافتی فیلو شپ پر امریکہ میں تھا ۔ وہ دھیما سا مسکرایا ۔اور بڑی قناعت سے بولا ۔“ہم تو ایسی باتیں خواب میں بھی نہیں سوچتے ۔‘‘
صحافی پاکستان کی ایک اقلیتی برادری کا رکن بھی تھا ۔ میں نے اس کی بات سنی، اپنا کاغذ قلم سیدھا کیا ، اور پروفیسر کی گفتگو کے نوٹس لینے لگی ۔ میں جانتی تھی، میں جو سن رہی ہوں ، اسے واپس دفتر جاکر کسی ٹی وی سٹوری کی شکل دینا مشکل ہوگا۔۔ پھر بھی میں ایسا کر رہی تھی ۔۔ پروفیسر کی باتوں کو کوئی کتنے بھی شک کی گنجائش دے کر سنتا ، ان میں کچھ نہ کچھ تھا ، جو کڑوے بادام جیسا تلخ ، مگرکہیں نہ کہیں سچا ہوتا ہے ۔
پروفیسر نے بتایا کہ وہ اسلام میں قوانین وراثت اور جائیداد کے معاملوں پرتحقیق کر رہا تھا، کہ اسے اسلام اور پاکستان کے تعلق میں دلچسپی پیدا ہوئی اور اس نے یہ جائزہ لینا چاہا کہ لوگ اچھے مسلمان کیسے بنتے ہیں؟ تب اسے پہلی بار پتہ چلا کہ مسلمان اپنی طرز مسلمانی میں ایک دوسرے سے کتنے مختلف ہیں۔۔ اور اسلام میں کس قدر تنوع پایا جاتا ہے۔۔ پھر اسے یہ جاننے کا تجسس پیدا ہوا کہ مسلمان برادری اپنے اتحاد کو قائم رکھ کر بھی کیسے یہ نہیں بھولتی کہ ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان سے فرق کیا ہے؟
اس تجسس نے اسے ایک تحقیق پر آمادہ کیا۔۔ یہ تحقیق اسے پاکستان لے گئی۔ اس نے سوالنامہ مرتب کیا اور پاکستان کے کچھ شہروں اور قصبوں میں عام لوگوں، پرائیوٹ اور سرکاری سکولوں کے اساتذہ سے کچھ سوال کئے۔۔۔۔ جیسے کہ، کیا آپ اپنے آپ کو صرف مسلمان سمجھتے ہیں یا سنی، شیعہ یا کسی اور فرقے کا مسلمان؟
کیا سکولوں میں پڑھائی جانے والی دینیات میں فِرقوں کا فرق واضح کیا گیا ہے؟ اور اسی نوعیت کے کچھ اور سوال ۔
پروفیسراور اس کی ٹیم نے اپنے کیمرے پر لوگوں کے جو جوابات ریکارڈ کئے، ان پر مبنی مختصر دورانیئے کی ایک فلم گفتگو کی اس نشست میں دکھائی گئی۔۔
فلم میں ایک سرکاری سکول کے استاد کا یہ جواب بھی شامل تھا کہ، ’’ سکولوں میں پڑھائی جانے والی دینیات میں ایسا کوئی مواد شامل نہیں، جس سے ایک مسلمان کو پتہ چلے کہ اس کے اور دوسرے مسلمان کے درمیان کیا فرق ہے کیونکہ مسلکی اختلاف کو واضح کرنے والا، تفرقہ پھیلانے والا علم ، بچوں کے ذہنوں پر برا اثر ڈالے گا۔‘‘
اس پر نشست میں شریک دیگر پاکستانیوں نے وہی سوال کیا، جو میرے ذہن میں بھی تھا کہ ایک غیر ملکی پروفیسر کو پاکستان جاکر ایسے سوال اٹھانے کی ضرورت کیا تھی۔؟
پروفیسر نے کہا ، ’’مسئلے کا پتہ لگانے کے لئے اس کی جڑ تلاش کرنی پڑتی ہے۔‘‘
پروفیسر میتھیو نیلسن نے جو کچھ مجھے بعد میں اپنے انٹرویو میں بتایا، وہ میں اپنے اس بلاگ میں شامل کرنے کی کوشش کر رہی ہوں۔
پروفیسر نے کہا۔ ’’بحیثیت ایک قوم ،پاکستان کے وجود میں آنے کے ساتھ ہی یہ سوال پیدا ہو چکا تھا کہ اگر یہ ملک مسلمانوں کے لئے قائم کیا گیا ہے تو کون سے مسلک کے مسلمانوں کے لئے؟۔۔ یہ مسئلہ نومبر 1947میں یعنی پاکستان کے قیام کے صرف دو مہینے بعد ایک ایجوکیشن کانفرنس میں زیر ِغور آیا تھا ۔ کانفرنس کے شرکاء کو پاکستان کے مشرقی اور مغربی حصے میں پائے جانےو الے تنوع کا اندازہ تھا، لیکن زیادہ تر بنگالی، بلوچی، سندھی اور پشتونوں کے فرق پر غور کیا جا رہا تھا۔۔۔ اور سوچا جا رہا تھا کہ زبان اور علاقے کے تنوع کے ساتھ لوگوں کو کسی مشترکہ مقصد کے گرد متحد کرنا ضروری ہے ۔اس کانفرنس میں سوچا گیا کہ یہ مشترکہ مقصد اسلام ہی ہو سکتا ہے ۔ کانفرنس کا انعقاد کروانے والے وزیر تعلیم فضل الرحمن نے، جن کا تعلق مشرقی پاکستان سے تھا، کہا کہ ملک میں ایک ایسے نظریہ پاکستان کو فروغ دیا جائے گا ، جس کے تانے بانے اسلام کے گرد بنے جائیں گے ، لیکن جب اسلام کے گرد بنے جانے والے اس نظریہ پاکستان کی شکل واضح ہونا شروع ہوئی ، تو اس نے ریاست کے لئے ایک چیلنج پیدا کر دیا ۔ اس کانفرنس میں طے کیا گیا تھا کہ ریاست تعلیمی نظام میں اسلامیات کو فروغ دے گی اور کسی فرقہ واریت یا مذہبی تعصب کی حوصلہ شکنی کی جائے گی۔‘‘
’’یعنی اس ایجو کیشن کانفرنس کے شرکاء کو بھی ’’وہ کون سا والا اسلام ہوگا‘‘ والا سوال درپیش تھا۔۔۔ یعنی ایک اسلام۔۔ پاکستانی اسلام۔۔۔ اور انہیں یہ احساس ہو گیا تھا کہ پاکستان میں ایک طرح کا مسلمان ہونا کئی حوالوں سے بے حد مشکل ہے۔۔۔ یہ بات اب بہت سے لوگوں کو یاد نہیں ہے‘‘۔۔ میتھیو نیلسن نے کہا، ’’لیکن پاکستان آج تک اسی مسئلے سے نمٹنے کی کوشش کر رہا ہے۔ 1970 کی دہائی میں ایک اسلام کے ایسے ہی نعرے افغانستان میں سوویت یونین سے لڑنے میں کار آمد ثابت ہوئے۔۔ کچھ لوگوں کو یہ بات کسی حد تک یاد بھی ہے لیکن وہ اس کا پس منظر بھول چکے ہیں۔‘‘
میتھیو نیلسن کا کہنا تھاکہ پاکستان کا اصل چیلنج اس کے تعلیمی نظام میں ہے۔ زیادہ تر طالبعلم سرکاری یا نجی سکول میں اسلامیات کی ٹیکسٹ بک پڑھتے ہیں، مدرسے جاتے ہیں یا قرآن حفظ کرنے کے لئے کسی مولانا صاحب کی خدمات حاصل کرتے ہیں۔ مگر ان تمام طریقوں سے حاصل ہونے والی تعلیم کا سارا زور طالب علم کو اسلام کی اہمیت سکھانے پر ہے۔
’’چیلنج تب پیدا ہوتا ہے ۔‘‘۔۔میتھیو نیلسن نے دوبارہ کہنا شروع کیا ۔’’جب لوگ اچھا مسلمان بننے کی اہمیت پہچان لیتے ہیں، اور پھر انہیں پتہ چلتا ہے کہ اچھا مسلمان بننے کے طریقے ایک سے زیادہ ہیں۔ پھر انہیں یہ فکر ہوتی ہے کہ وہ کیسے اپنی کمیونٹی کو ویسا مسلمان بنائیں، جیسے وہ خود ہیں۔ اور جب ہر شخص اپنے انداز کا اسلام معاشرے پر لاگو کرنے کا سوچتا ہے تو ایک اسلام کئی حصوں میں خود بخود بٹ جاتا ہے ۔ یہی پاکستان کا چیلنج ہے۔‘‘
لیکن ہر مسئلے کا کوئی حل بھی تو ہوتا ہے؟ یہ کیسے ممکن ہے کہ سوال موجود ہوں اور جواب نہیں؟ میتھیو نیلسن نے سوال کے مکمل ہونے کا انتظار نہیں کیا ۔۔میں اب تک ان کے جواب کو سمجھنے کی کوشش کر رہی ہوں ۔
’’میرے خیال میں پاکستان کو اسلام سے الگ کرنا مشکل ہے۔ اسلام میں ہر طرح کے نظریات کی جگہ ہو، ایسا سوچنا بھی شاید اتنا آسان نہیں۔ لیکن پاکستان کا آئین ایک زندہ دستاویز ہے، ہزاروں سال پہلے پتھر پرکندہ کی گئی تحریر نہیں۔۔۔۔ آئین، جس میں تعصب کی حوصلہ شکنی کی گئی ہو ، اپنے اس پڑوسی کو سمجھنے پر زور دیا گیا ہو، جو شائد آپ سے مختلف ہو ، اورجب آپ اسے (اپنے پڑوسی کو) سمجھنے کی کوشش کریں گے تو کسی غلط فہمی کا شکار نہیں ہونگے ۔ مگر اس وقت پاکستانی آئین یہ کہتا ہے کہ فرقہ واریت کی حوصلہ شکنی کرنی چاہئے، اس لئے مسلک کے فرق کو نظر انداز کرنا ہی مناسب ہے۔ جبکہ میرے خیال میں فرقہ واریت کو ختم کرنے کے لئے مسلک کے فرق کو نظر انداز کرنا ضروری نہیں، اس کے بارے میں سمجھ بوجھ بڑھانے اور اس کی اہمیت سمجھانے کی ضرورت ہے۔ پاکستان میں اب ایسے لوگ تلاش کرنا مشکل ہیں، جو کہتے ہوں کہ مسلک کے فرق سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ جو سمجھتے ہیں کہ مسلک کے فرق کو تسلیم کرنے سے مسلکی اختلافات بڑھیں گے۔ لیکن ہمیں یہ سوچنا ہوگا کہ مسلکی فرق کو واضح نہ کرنے سے، ایک ہی طرح کی سوچ پر اصرار کرنے سے، فرقہ ورانہ نفرت کو ہوا ملتی ہے۔۔جیسے ہی آپ کہتے ہیں ، صرف ایک مسلک۔۔ تو سوال آتا ہے کہ کون سا والا ؟‘‘
ڈاکٹر میتھیو نیلسن یونیورسٹی آف لندن سے وابستہ ہیں۔ یونیورسٹی کی ویب سائٹ پر پاکستان، افغانستان، بنگلہ دیش اور بھارت کو ان کی تحقیق کے خاص شعبے قرار دیا گیا ہے۔ ان کی کتاب،
In the Shadow of Sharia: Islam, Islamic Law, and Democracy in Pakistan
کو 2011 میں نیویارک کے کولمبیا یونیورسٹی پریس اور لندن کے ہرسٹ اینڈ کو نے شائع کیا جبکہ 2010 میں وہ پاکستان اور بھارت میں مسلمانوں کے قوانین ِوراثت، پاکستان میں دینی تعلیم اور جمہوریت کا چیلنج اور مسلمان مارکیٹس اور پاکستان میں اچھی تعلیم کے موضوعات پر کچھ اہم کتابوں کے لئے مضامین تحریر کر چکے ہیں۔
اب آپ کا جی چاہے تو بھلے، میتھیو نیلسن کو پاکستان کے’’اندرونی‘‘ معاملات پر رائے زنی کا شوقین مغربی دانشور قرار دے لیں۔۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کل جب میں اپنا فیس بک کھولوں تو میری نیوز فیڈ، پروفیسر کے مبینہ طور پر آسمانی بجلی سے بھسم ہوجانے والے مکان کی تصویروں سے بھری پڑی ہو۔۔۔ پھر بھی میں پروفیسر کی گفتگو میں آپ کو شریک کرناچاہتی ہوں۔
دیر سے سہی ۔۔ ایک منٹ کے لئے سہی ۔۔۔۔ تجرباتی طور پر ہی سہی ۔۔۔۔۔ سوچنے میں کیا حرج ہے ؟