واشنگٹن —
شام کے لیے بین الاقوامی ایلچی نے اِس امید کا اظہار کیا ہے کہ نئےامن مذاکرات کا انعقاد اب بھی کچھ ہی ہفتے دور کا معاملہ ہے۔
یہ بات اقوام متحدہ اور عرب لیگ کے ایلچی، لخدر براہیمی نے جمعے کے روز بیروت میں کہی، جِس سے قبل اُنھوں نے شام میں تین روز تک گفتگو جاری رکھی۔
اُنھوں نے اِس اعتماد کا اظہار کیا کہ عالمی طاقتوں کے درمیان پائی جانے والی نااتفاقیاں، اِس عمل میں حائل نہیں ہوں گی۔
اُن کے بقول، ’ ہمیں کسی بھی ملک میں، اِس طرح کے اجلاس منعقد کیے جانے کی ٕمخالفت نظر نہیں آئی، اور یہ کہ سارے لوگ اِس سلسلے میں تعاون کرنے پر تیار ہیں۔ یہ بات کہ اِس اجلاس میں کیا کچھ ہوسکتا ہے، یقینی طور پر ہر ملک کی اپنی رائے، اپنے مسائل اورتشویش کا اپنا اندازہے۔لیکن، میرے خیال میں، ہر ایک کو بخوبی یہ علم ہے کہ یہ ایک خطرناک بحران ہے، جس سے صرف شام کےہی لاگوں کو خطرہ لاحق نہیں، جو یہ تکالیف جھیل رہے ہیں۔ لیکن، یہ خطے کے لیے خطرے کا باعث بھی ہے۔‘
باغیوں نے مجوزہ ’جنیوا دوئم‘ مذاکرات کی مخالفت کرتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اُسی صورت میں شریک ہوں گے، اگر صدر بشار الاسد اُس سے قبل مستعفی ہو جاتے ہیں، تاہم، براہیمی نے کہا ہے کہ کسی قسم کی پیشگی شرائط نہیں ہوں گی۔
اُن کے بقول، ’در اصل میری رائے کو معنی نہیں رکھتی۔ اِس بات پر اتفاق رائے ہے کہ جنیوا اجلاس میں شرکت کے لیے کسی بھی فریق کی طرف سے کسی قسم کی پیشگی شرائط قابلِ قبول نہیں ہوں گی۔ اورمقررہ ہدف یہ ہے کہ گذشتہ سال 30جون کے بیان پر عمل درآمد کیا جائے‘۔
اِن مذاکرات کے بارے میں اپنا مؤقف تشکیل دینے کی غرض سے،شام کا کلیدی باغی اتحاد، ’دِی نیشنل کولیشن‘ اگلے ہفتے ملاقات کر رہا ہے۔ کچھ اسلام پرست باغی، جو اِس بلاک کی قیادت کو مسترد کرتے ہیں، متنبہ کیا ہے کہ کسی کی طرف سے شرکت کو وہ غداری کے مترادف سمجھیں گے۔
اِس سے قبل جمعے کے دِن دمشق میں، براہیمی نے اقوام متحدہ کا مؤقف بیان کرتے ہوئےکہاکہ اس اجلاس میں ایران کوشرکت کرنی ہوگی، جو اسد کا ایک اہم حامی ہے۔
دریں اثناٴ، بتایا جاتا ہے کہ اسرائیلی جنگی طیاروں نے لتاکیہ کی بندرگاہ والے شہر کے قریب واقع شام کے ایک فوجی اڈے پر میزائل کی رسد پر حملہ کیا ہے۔ جمعرات کو، بغیر نام ظاہر کیے، امریکی اہل کاروں نے بتایا کہ اسرائیلی طیاروں کے اِس حملے میں میزائل کی اُس روسی کھیپ کو ہدف بنایا گیا، جو مذہبی شدت پسند گروپ، حزب اللہ کو بھیجی جا رہی تھی۔
یہ بات اقوام متحدہ اور عرب لیگ کے ایلچی، لخدر براہیمی نے جمعے کے روز بیروت میں کہی، جِس سے قبل اُنھوں نے شام میں تین روز تک گفتگو جاری رکھی۔
اُنھوں نے اِس اعتماد کا اظہار کیا کہ عالمی طاقتوں کے درمیان پائی جانے والی نااتفاقیاں، اِس عمل میں حائل نہیں ہوں گی۔
اُن کے بقول، ’ ہمیں کسی بھی ملک میں، اِس طرح کے اجلاس منعقد کیے جانے کی ٕمخالفت نظر نہیں آئی، اور یہ کہ سارے لوگ اِس سلسلے میں تعاون کرنے پر تیار ہیں۔ یہ بات کہ اِس اجلاس میں کیا کچھ ہوسکتا ہے، یقینی طور پر ہر ملک کی اپنی رائے، اپنے مسائل اورتشویش کا اپنا اندازہے۔لیکن، میرے خیال میں، ہر ایک کو بخوبی یہ علم ہے کہ یہ ایک خطرناک بحران ہے، جس سے صرف شام کےہی لاگوں کو خطرہ لاحق نہیں، جو یہ تکالیف جھیل رہے ہیں۔ لیکن، یہ خطے کے لیے خطرے کا باعث بھی ہے۔‘
باغیوں نے مجوزہ ’جنیوا دوئم‘ مذاکرات کی مخالفت کرتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اُسی صورت میں شریک ہوں گے، اگر صدر بشار الاسد اُس سے قبل مستعفی ہو جاتے ہیں، تاہم، براہیمی نے کہا ہے کہ کسی قسم کی پیشگی شرائط نہیں ہوں گی۔
اُن کے بقول، ’در اصل میری رائے کو معنی نہیں رکھتی۔ اِس بات پر اتفاق رائے ہے کہ جنیوا اجلاس میں شرکت کے لیے کسی بھی فریق کی طرف سے کسی قسم کی پیشگی شرائط قابلِ قبول نہیں ہوں گی۔ اورمقررہ ہدف یہ ہے کہ گذشتہ سال 30جون کے بیان پر عمل درآمد کیا جائے‘۔
اِن مذاکرات کے بارے میں اپنا مؤقف تشکیل دینے کی غرض سے،شام کا کلیدی باغی اتحاد، ’دِی نیشنل کولیشن‘ اگلے ہفتے ملاقات کر رہا ہے۔ کچھ اسلام پرست باغی، جو اِس بلاک کی قیادت کو مسترد کرتے ہیں، متنبہ کیا ہے کہ کسی کی طرف سے شرکت کو وہ غداری کے مترادف سمجھیں گے۔
اِس سے قبل جمعے کے دِن دمشق میں، براہیمی نے اقوام متحدہ کا مؤقف بیان کرتے ہوئےکہاکہ اس اجلاس میں ایران کوشرکت کرنی ہوگی، جو اسد کا ایک اہم حامی ہے۔
دریں اثناٴ، بتایا جاتا ہے کہ اسرائیلی جنگی طیاروں نے لتاکیہ کی بندرگاہ والے شہر کے قریب واقع شام کے ایک فوجی اڈے پر میزائل کی رسد پر حملہ کیا ہے۔ جمعرات کو، بغیر نام ظاہر کیے، امریکی اہل کاروں نے بتایا کہ اسرائیلی طیاروں کے اِس حملے میں میزائل کی اُس روسی کھیپ کو ہدف بنایا گیا، جو مذہبی شدت پسند گروپ، حزب اللہ کو بھیجی جا رہی تھی۔