واشنگٹن —
معروف امریکی تھینک ٹینک، ’وڈرو ولسن سینٹر‘ کے ریسرچ فیلو، خرم حسین نے کہا ہے کہ پاکستان کو اپنے معاشی استحکام کے لیے ہمسایہ ملک بھارت سے تعلقات بہتر بنانا ہوں گے۔
انہوں نے کہا کہ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ بھارت کے ساتھ اقتصادی روابط کٹنے یا محدود ہونے کے نتیجے میں گذشہ کئی عشروں کے دوران ملک کو اقتصادی لحاظ سے نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ بھارت کو ایک دشمن ملک کے طور پر دیکھنے اور اس سے فوجی مسابقت جاری رکھنے اور اپنی اقتصادی پالیسیوں کو اس دشمنی کے تابع رکھنے کی ہمیں بھاری قیمت ادا کرنی پڑی ہے۔
خرم حسین نے کہا کہ بھارت گذشتہ 20 برسوں کے دوران، دنیا کی تیزی سے ترقی کرتی ہوئی معیشت کے طور پر ابھرا ہے اور اگر ہم اقتصادی شعبے میں آگے بڑھنا اور اپنی معیشت کو مستحکم بنانا اور ترقی کی رفتار تیز کرنا چاہتے ہیں، تو ہمیں بھارت کے ساتھ دوستی بڑھانا ہوگی۔
انہوں نے کہا ہے کہ ہمیں بھارت دشمنی کے ’مائنڈ سیٹ‘ کو تبدیل کرنے اور دنیا کے تیزی سے بدلتے ہوئے حالات پر گہری نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔
ریسرچ فیلو خرم حسین نے ان خیالات کا اظہار ’وائس آف امریکہ‘ کے ٹیلی ویژن شو ’کیفے ڈی سی‘ میں اردو سروس کے سربراہ، فیض رحمن کے ساتھ ایک انٹرویو میں کیا۔ یہ ہفتے وار پروگرام ’پی ٹی وی ورلڈ سروس‘ میں بھی ٹیلی کاسٹ کیا جاتا ہے۔
وڈرو ولسن سینٹر ایک معروف امریکی تھینک ٹینک ہے جسے امریکی صدر وڈرو ولسن کی یاد اور ان کی خدمات کے اعتراف میں1968ء میں قائم کیا گیا تھا۔ اس سینٹر میں ایک خصوصی پروگرام کے تحت ہر سال پاکستان سے ایک اسکالر کو یہاں آکر ریسرچ کرنے کی دعوت دی جاتی ہے۔
اِن دنوں، خرم حسین، جِن کا تعلق میڈیا سے ہے، وڈروولسن سینٹر میں پاکستانی ریسرچ فیلو ہیں۔ ان کی تحقیق کا موضوع پاکستان میں آئی ایم ایف کا کردار اور شہری آبادیوں کا پھیلاؤ ہے۔
ایک سوال کے جواب میں، خرم حسین کا کہنا تھا کہ اپنے معاشی استحکام کے لیے پاکستان کو دو چیزوں پر بطور خاص توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ پہلی یہ کہ وہ اپنے ہمسایہ ملک بھارت کے ساتھ اپنے تعلقات معمول پر لائے، کیونکہ دنیا کی کوئی معیشت طویل عرصے کے تناظر میں اس وقت تک ترقی نہیں کر سکتی، تاوقتتکہ اس کے اپنے ہمسایوں سے اچھے روابط نہ ہوں۔
اُن کے بقول، گذشتہ تین عشروں کے دوران آپ کو دنیا بھر میں ایسی ایک بھی مثال نہیں ملے گی کہ کوئی بھی ملک اپنے ہمسایوں سے بہتر تعلقات رکھے بغیر تن تنہا اقتصادی ترقی کی منازل طے کر رہا ہو۔ اگر پاکستان اقتصادی خودکفالت اور ترقی کرنا چاہتا ہے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے مشرقی اور مغربی ہمسایوں کے ساتھ اپنے تعلقات معمول پر لائے۔
انہوں نے کہا کہ معاشی خود کفالت حاصل کرنے کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ پاکستان اپنے ٹیکس نیٹ ورک کو بہتر بنائے اور اس کا دائرہ بڑھائے، کیونکہ اگر آپ کے پاس اپنی حکومت چلانے کے لیے فنڈز نہیں ہیں تو آپ کو امداد دینے والوں کی خواہشات کے تابع رہنا پڑے گا۔
آئی ایم ایف سے پاکستان کے حالیہ قرض سے متعلق پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں، خرم حسین نے کہا کہ آئی ایم ایف ایک لحاظ سے امپیریل ازم کی ہی ایک شکل ہے۔ جب یہ کسی ملک میں داخل ہوتا ہے تو اس کی زد میں غریب آتے ہیں۔
’مگر اس بار، جہاں تک پاکستان میں آئی ایم ایف کے کردار کا تعلق ہے تو یہ کردار دوسری معیشتوں میں اس کے عمومی کردار سے کافی مختلف ہے۔ اب یہاں آپ کو اقتصادی منصوبہ بندیوں اور پالیسیوں کی تشکیل میں ایسے مقامی ماہرین زیادہ فعال اور متحرک دکھائی دیں گے، جن کے پاس اس شعبے کا عملی تجربہ موجود ہے۔ جو ماضی میں حکومت یا اسٹیٹ بینک میں اعلیٰ عہدوں پر فائز رہ چکے ہیں۔ جب کہ ماضی میں آپ کو باہر سے اقتصادی مشیر لانے پڑتے تھے۔ یہ پاکستان کے لیے آئی ایم ایف کے کردار میں ایک واضح تبدیلی ہے، جو یہ ظاہر کرتی ہے کہ اس بار وہ ماضی کی طرح سخت دباؤ کی اپنی پالیسی پر عمل نہیں کر رہا‘۔
پاک امریکہ تعلقات میں سرد مہری سے متعلق پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں خرم حسین نے کہا کہ اس کا بنیادی سبب مخصوص نوعیت کا مائنڈ سیٹ ہے۔جہاں تک ہماری پالیسیوں کا تعلق ہے تو ہم امریکہ سے اقتصادی فوائد حاصل کرنے کی تگ و دو کرتے ہیں اور امریکہ کو اپنے مختلف شعبوں میں امداد فراہم کرنے کے لیے کہتے ہیں۔
اُنھوں نے کہا کہ یہ ایک حقیقت ہے کہ ہماری معیشت کا انحصار بیرونی امداد پر ہے۔ لیکن، دوسری جانب، امریکی خارجہ پالیسی کے مقاصد پر ہم عدم اعتماد کی بات کرتے ہیں۔ ضرورت اس چیز ہے کہ ہم بیرونی بیساکھیوں کا سہارا ڈھونڈنے کی بجائے اپنے ملک کے اندر اصلاحات لائیں اور اقتصادی لحاظ سے وہ مشکل فیصلے کریں، جنہیں اب تک التوا میں ڈالتے آرہے ہیں۔
خرم حسین نے کہا کہ ہمیں خود انحصاری حاصل کرنے کے لیے کام کرنا چاہیئے اور بیرونی امداد پر انحصار ختم کردینا چاہیے، کیونکہ کوئی بھی ملک بلاسبب اور مفت امداد نہیں دیتا بلکہ اس کے بدلے میں وہ یہ زور دیتا ہے کہ عالمی بساط پر جاری کھیل میں اس کے حق میں کردار ادا کیا جائے، چاہے آپ اس کے لیے تیار ہوں یا نہ ہوں۔ اور جب آپ ایسا کرتے ہیں تو پھر آپ کئی طرح کی مشکلات میں گھر جاتے ہیں۔ اس لیے، ضروری ہے کہ مشکل فیصلے کرکے پاکستان اپنے پاؤں پر کھڑا ہو اور خود کو بیرونی امداد کے گرداب سے باہر نکالے۔
’وڈروولسن سینٹر‘ میں پاکستان کے لیے شروع کیے جانے والے پروگرام کے متعلق پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں، خرم حسین نے بتایا کہ اس پروگرام کا آغاز 2005 ءمیں ہوا تھا۔ اس پروگرام کی فیلوشپ کے لیے پاکستانی کاروباری افراد کا ایک گروپ فنڈ ز فراہم کرتا ہے۔
اس پروگرام کے تحت، پاکستان سے آنے والا اسکالر اپنے ملک کی پالیسیوں پر مبنی ریسرچ کرتا ہے اور سینٹر میں پاکستان کے موضوع پر ہونے والی سالانہ کانفرنس میں سوالات کے جواب دیتا ہے۔ مثال کے طور پر، اس سلسلے میں پاکستان میں توانائی کے بحران اور پاک بھارت تجارت پر کانفرنسیں ہو چکی ہیں۔
اس پروگرام میں، پاکستان سے تعلق رکھنے والی کئی اہم شخصیات کام کرچکی ہیں، جن میں ملیحہ لودھی، خالد احمد، ریاض محمد خان اور زاہد حسین کے نام شامل ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ بھارت کے ساتھ اقتصادی روابط کٹنے یا محدود ہونے کے نتیجے میں گذشہ کئی عشروں کے دوران ملک کو اقتصادی لحاظ سے نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ بھارت کو ایک دشمن ملک کے طور پر دیکھنے اور اس سے فوجی مسابقت جاری رکھنے اور اپنی اقتصادی پالیسیوں کو اس دشمنی کے تابع رکھنے کی ہمیں بھاری قیمت ادا کرنی پڑی ہے۔
خرم حسین نے کہا کہ بھارت گذشتہ 20 برسوں کے دوران، دنیا کی تیزی سے ترقی کرتی ہوئی معیشت کے طور پر ابھرا ہے اور اگر ہم اقتصادی شعبے میں آگے بڑھنا اور اپنی معیشت کو مستحکم بنانا اور ترقی کی رفتار تیز کرنا چاہتے ہیں، تو ہمیں بھارت کے ساتھ دوستی بڑھانا ہوگی۔
انہوں نے کہا ہے کہ ہمیں بھارت دشمنی کے ’مائنڈ سیٹ‘ کو تبدیل کرنے اور دنیا کے تیزی سے بدلتے ہوئے حالات پر گہری نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔
ریسرچ فیلو خرم حسین نے ان خیالات کا اظہار ’وائس آف امریکہ‘ کے ٹیلی ویژن شو ’کیفے ڈی سی‘ میں اردو سروس کے سربراہ، فیض رحمن کے ساتھ ایک انٹرویو میں کیا۔ یہ ہفتے وار پروگرام ’پی ٹی وی ورلڈ سروس‘ میں بھی ٹیلی کاسٹ کیا جاتا ہے۔
وڈرو ولسن سینٹر ایک معروف امریکی تھینک ٹینک ہے جسے امریکی صدر وڈرو ولسن کی یاد اور ان کی خدمات کے اعتراف میں1968ء میں قائم کیا گیا تھا۔ اس سینٹر میں ایک خصوصی پروگرام کے تحت ہر سال پاکستان سے ایک اسکالر کو یہاں آکر ریسرچ کرنے کی دعوت دی جاتی ہے۔
اِن دنوں، خرم حسین، جِن کا تعلق میڈیا سے ہے، وڈروولسن سینٹر میں پاکستانی ریسرچ فیلو ہیں۔ ان کی تحقیق کا موضوع پاکستان میں آئی ایم ایف کا کردار اور شہری آبادیوں کا پھیلاؤ ہے۔
ایک سوال کے جواب میں، خرم حسین کا کہنا تھا کہ اپنے معاشی استحکام کے لیے پاکستان کو دو چیزوں پر بطور خاص توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ پہلی یہ کہ وہ اپنے ہمسایہ ملک بھارت کے ساتھ اپنے تعلقات معمول پر لائے، کیونکہ دنیا کی کوئی معیشت طویل عرصے کے تناظر میں اس وقت تک ترقی نہیں کر سکتی، تاوقتتکہ اس کے اپنے ہمسایوں سے اچھے روابط نہ ہوں۔
اُن کے بقول، گذشتہ تین عشروں کے دوران آپ کو دنیا بھر میں ایسی ایک بھی مثال نہیں ملے گی کہ کوئی بھی ملک اپنے ہمسایوں سے بہتر تعلقات رکھے بغیر تن تنہا اقتصادی ترقی کی منازل طے کر رہا ہو۔ اگر پاکستان اقتصادی خودکفالت اور ترقی کرنا چاہتا ہے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے مشرقی اور مغربی ہمسایوں کے ساتھ اپنے تعلقات معمول پر لائے۔
انہوں نے کہا کہ معاشی خود کفالت حاصل کرنے کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ پاکستان اپنے ٹیکس نیٹ ورک کو بہتر بنائے اور اس کا دائرہ بڑھائے، کیونکہ اگر آپ کے پاس اپنی حکومت چلانے کے لیے فنڈز نہیں ہیں تو آپ کو امداد دینے والوں کی خواہشات کے تابع رہنا پڑے گا۔
آئی ایم ایف سے پاکستان کے حالیہ قرض سے متعلق پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں، خرم حسین نے کہا کہ آئی ایم ایف ایک لحاظ سے امپیریل ازم کی ہی ایک شکل ہے۔ جب یہ کسی ملک میں داخل ہوتا ہے تو اس کی زد میں غریب آتے ہیں۔
’مگر اس بار، جہاں تک پاکستان میں آئی ایم ایف کے کردار کا تعلق ہے تو یہ کردار دوسری معیشتوں میں اس کے عمومی کردار سے کافی مختلف ہے۔ اب یہاں آپ کو اقتصادی منصوبہ بندیوں اور پالیسیوں کی تشکیل میں ایسے مقامی ماہرین زیادہ فعال اور متحرک دکھائی دیں گے، جن کے پاس اس شعبے کا عملی تجربہ موجود ہے۔ جو ماضی میں حکومت یا اسٹیٹ بینک میں اعلیٰ عہدوں پر فائز رہ چکے ہیں۔ جب کہ ماضی میں آپ کو باہر سے اقتصادی مشیر لانے پڑتے تھے۔ یہ پاکستان کے لیے آئی ایم ایف کے کردار میں ایک واضح تبدیلی ہے، جو یہ ظاہر کرتی ہے کہ اس بار وہ ماضی کی طرح سخت دباؤ کی اپنی پالیسی پر عمل نہیں کر رہا‘۔
پاک امریکہ تعلقات میں سرد مہری سے متعلق پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں خرم حسین نے کہا کہ اس کا بنیادی سبب مخصوص نوعیت کا مائنڈ سیٹ ہے۔جہاں تک ہماری پالیسیوں کا تعلق ہے تو ہم امریکہ سے اقتصادی فوائد حاصل کرنے کی تگ و دو کرتے ہیں اور امریکہ کو اپنے مختلف شعبوں میں امداد فراہم کرنے کے لیے کہتے ہیں۔
اُنھوں نے کہا کہ یہ ایک حقیقت ہے کہ ہماری معیشت کا انحصار بیرونی امداد پر ہے۔ لیکن، دوسری جانب، امریکی خارجہ پالیسی کے مقاصد پر ہم عدم اعتماد کی بات کرتے ہیں۔ ضرورت اس چیز ہے کہ ہم بیرونی بیساکھیوں کا سہارا ڈھونڈنے کی بجائے اپنے ملک کے اندر اصلاحات لائیں اور اقتصادی لحاظ سے وہ مشکل فیصلے کریں، جنہیں اب تک التوا میں ڈالتے آرہے ہیں۔
خرم حسین نے کہا کہ ہمیں خود انحصاری حاصل کرنے کے لیے کام کرنا چاہیئے اور بیرونی امداد پر انحصار ختم کردینا چاہیے، کیونکہ کوئی بھی ملک بلاسبب اور مفت امداد نہیں دیتا بلکہ اس کے بدلے میں وہ یہ زور دیتا ہے کہ عالمی بساط پر جاری کھیل میں اس کے حق میں کردار ادا کیا جائے، چاہے آپ اس کے لیے تیار ہوں یا نہ ہوں۔ اور جب آپ ایسا کرتے ہیں تو پھر آپ کئی طرح کی مشکلات میں گھر جاتے ہیں۔ اس لیے، ضروری ہے کہ مشکل فیصلے کرکے پاکستان اپنے پاؤں پر کھڑا ہو اور خود کو بیرونی امداد کے گرداب سے باہر نکالے۔
’وڈروولسن سینٹر‘ میں پاکستان کے لیے شروع کیے جانے والے پروگرام کے متعلق پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں، خرم حسین نے بتایا کہ اس پروگرام کا آغاز 2005 ءمیں ہوا تھا۔ اس پروگرام کی فیلوشپ کے لیے پاکستانی کاروباری افراد کا ایک گروپ فنڈ ز فراہم کرتا ہے۔
اس پروگرام کے تحت، پاکستان سے آنے والا اسکالر اپنے ملک کی پالیسیوں پر مبنی ریسرچ کرتا ہے اور سینٹر میں پاکستان کے موضوع پر ہونے والی سالانہ کانفرنس میں سوالات کے جواب دیتا ہے۔ مثال کے طور پر، اس سلسلے میں پاکستان میں توانائی کے بحران اور پاک بھارت تجارت پر کانفرنسیں ہو چکی ہیں۔
اس پروگرام میں، پاکستان سے تعلق رکھنے والی کئی اہم شخصیات کام کرچکی ہیں، جن میں ملیحہ لودھی، خالد احمد، ریاض محمد خان اور زاہد حسین کے نام شامل ہیں۔