رسائی کے لنکس

تھر کے خوبصورت رنگوں کی ترجمان ’کلرز آف سینڈ‘


تھر کو اگر ثقافتی اعتبارسے پاکستان کا سب سے ’امیر‘خطہ کہا جائے توکچھ غلط نہ ہوگا۔ صحرائے تھرکی اسی ثقافت کے مختلف جگمگاتے ہوئے رنگ دستاویزی فلم ’کلرز آف سینڈز‘یا ’ریت کے رنگ ‘ میں دکھائی گئی ہے۔

پاکستان میں کمرشل فلموں کے ذریعے فلم اور سنیما انڈسٹری کو نئی زندگی دینے کی کوششیں بہت تیزی سے جاری ہیں۔ اس کی مثال حالیہ برسوں میں بننے والی کمرشل فلموں کی اچھی خاصی تعداد ہے ورنہ سے اس سے قبل نئی فلمیں بننا بند ہوگئی تھیں. ہر شہر میں ایک کے بعد ایک سنیماہال منہدم ہوتے جارہےتھے اور انڈسٹری ’آخری دموں ‘پر تھی۔

کمرشل فلموں کی تیاری اور پاکستان میں بھارتی فلموں کی نمائش کی اجازت نے جہاں فلم انڈسٹری کو ’نیاجیون‘ دیا ہے وہیں آرٹ موویز اور خاص کر دستاویزی فلمیں بننے کا رجحان بہت تیزی سے بڑھا ہے۔حالیہ سالوں میں بہت سے نوجوان پروڈیوسرز کی شارٹ فلمز اور دستاویزی فلموں نے بین الاقوامی فیسٹیول میں ایوارڈز جیتے ہیں۔

کالج اور یونیورسٹی کے طلباء خاص کر میڈیا اسٹیڈیز کے طالب علموں نے دستاویزی فلمیں بنانے میں بہت گہری دلچسپی لی ہے۔ اس کی ایک مثال امر محبوب کی دستاویزی فلم ’دی کلرز آف سینڈ‘ بھی ہے۔

گزشتہ ہفتے ’عثمان انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی ‘کراچی سے وابستہ نوجوانوں کی تیار کردہ دستاویزی فلم ’کلرز آف سینڈز‘ کی نمائش ہوئی ۔ فلم کے نام سے ہی ظاہر ہے کہ اس کا موضوع ’تھر‘ ہے۔

پاکستان کے صوبے سندھ میں بھارت کی سرحد کوچھوتاصحرائے تھراکثر قحط کا شکاررہتا ہے لیکن اس کے باوجودتھرکی دھرتی میں سمٹے مختلف مذاہب اورثقافتوں کے رنگ ماند نہیں پڑتے ۔

تھر واسیوں کے محبت بھرے رویے یہاں آنے والوں کواپنا اسیر بنا لیتے ہیں۔

تھر کو اگر ثقافتی اعتبار سے پاکستان کا سب سے ’امیر‘خطہ کہا جائے توکچھ غلط نہ ہوگا۔صحرائے تھرکی اسی ثقافت کے مختلف جگمگاتے ہوئے رنگ دستاویزی فلم ’کلرزآف سینڈز‘میں دکھائے ہیں۔

امرمحبوب کی لکھی،ایڈٹ اورڈائریکٹ کردہ ’کلرزآف سینڈز ‘پچپن منٹ دورانئے کی دستاویزی فلم ہے جسے مکمل ہونے میں پانچ سال لگے۔فلم میں تھر کی تاریخ، مشکل زندگی، مسائل اور پریشانیوں کو بھی کافی تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔ تھر کے مقامی فنکاروں ، موسیقاروں اور گلوکاروں کو بھی ایسے ساز بجاتے دکھایا گیا ہے جو صرف سندھ کی پہچان ہیں۔

دس لاکھ سے کچھ اوپرآبادی والے تھرکے باسی مختلف مذہبوں اوربرادریوں میں ہونے کے باوجود ایک ہیں ۔تھرکے وسیع لینڈاسکیپ ،موسم اورموسموں سے جڑی سرگرمیوں کی عکاسی ’کلرزآف سینڈز‘کی خاصیت ہے۔

تھرواسیوں کا رہن سہن،مشکل زندگی کے باوجود اپنی دھرتی سے محبت ،خوشی کے اظہارکے لئے مخصوص گیت اورساز ۔۔یہ سب تھرکوایک مکمل اوردلکش تصویر کا روپ دیتے ہیں اور یہی سب کچھ ’کلرزآف سینڈز‘میں پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

فلم میں وائس اوور امرمحبوب، سونو خنگرانی، شنکرلال، پٹھانی پارسا کی ہے جبکہ میوزک صادق فقیر، لطیف، تھانو بھیلا و دیگر نے دیا ہے۔

فلم میں موقع کی مناسبت سے ن م راشد، فیض احمد فیض، ستیش گپتا اور غالب کی شاعری کا استعمال عمدگی سے کیا گیا۔

فلم کی مجموعی طور پربات کریں تو احساس ہوتا ہے کہ یقینا ً فلم کا بجٹ کم تھا ۔ غالباً اسی سبب فلم میں ٹیکنالوجی کے استعمال کی کمی محسوس ہوئی ہے۔

امر مجبوب نے کئی کام خود ہی انجام دیئے ہیں مثلاً وائس اور ڈائریکشن بھی انہی کی ہے،اسکرپٹ بھی خود انہوں نے ہی لکھا ہے ،۔ اس سے ’ون مین شو‘ کا منفی ثاثر ابھرتا ہے ۔اس کے باوجود اسے امر محبوب کا شاہکار کہا جاسکتا ہے۔ انہوں نے اسکرپٹ کے لئے خاصی تحقیق کی ہے جیسے پاکستان میں بدھ مت کے ماننے والوں کے بارے میں عام کتابوں یا جرائد میں ذکر تک نہیں ملتا لیکن امرمحبوب نے ان پر بہت محنت سے تحقیق کی ہے۔

فلم میں دیگر قومیتوں کے حوالے سے ایک اچھی تحقیق بھی موجود ہے ۔ جو ادارے ، طالب علم اور تحقیق پسند لوگ پاکستان پر تحقیق کرنا چاہتے ہیں ان کے لئے یہ فلم حقیقت میں ایک نادر ’ دستاویز‘ ہے۔

XS
SM
MD
LG