متعدی امراض کے ماہر ڈاکٹر ساجد چوہدری کہتے ہیں گھبرائیں نہیں لیکن انتہائی احتیاط برتیں تو کرونا وائرس پر جلد قابو پانا ممکن ہو جائے گا۔
کرونا وائرس دنیا بھر میں تیزی سے پھیل رہا ہے اور اس سے اب تک دس لاکھ سے زائد افراد متاثر ہو چکے ہیں۔ سب سے زیادہ متاثرین کی تعداد امریکہ میں ہے جہاں 271,000 سے زیادہ افراد اس عالمگیر وبا میں مبتلا ہو چکے ہیں اور ہلاکتوں کی تعداد 7 ہزار کے قریب پہنچ گئ ہے۔
ہم نے امریکی ریاست فلوریڈا کے شہر آرلینڈو میں متعدی امراض کے ایک ماہر اور متعدی امراض سے متعلق ’ینگ فزیشنزکمیٹی‘ کے سربراہ ڈاکٹر ساجد چوہدری سے ٹیلی فون پر بات کی۔
ڈاکٹر ساجد چوہدری نے بتایا، ’’آرلینڈو میں ان کے اسپتال میں مارچ کے آغاز میں اکا دکا مریض تھے، لیکن پچھلے دو ہفتوں سے ان کی تعداد میں اضافہ ہونے لگا ہے کیونکہ نیویارک میں وائرس تیزی سے پھیلا تو لوگ وہاں سے اس ریاست میں منتقل ہوئے جس سے یہاں مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہوا اور اس وقت ان کے پاس کرونا وائرس سے متاثرہ مریضوں کی تعداد پچیس ہے جو اسپتال میں زیر علاج ہیں اور ان کی جانچ پرکھ کی جا رہی ہے۔ انھیں پی یو آئی کہا جاتا ہے یعنی وہ مریض جن کی انوسٹی گیشن کی جا رہی ہے‘‘۔
ڈاکٹر چوہدری کے مطابق ان مریضوں کے ٹیسٹ رزلٹ 24 سے 48 گھنٹے میں معلوم ہوتے ہیں اور اس وقت آٹھ کیسز کی تصدیق ہوئی ہے۔ چار مریضوں کی حالت مستحکم ہے جب کہ چار وینٹی لیٹرز پر ہیں۔ وینٹی لیٹرز والے مریضوں کے لئے سینٹرل فلوریڈا کے ایک اسپتال میں انتظام کیا گیا ہے۔
ڈاکٹر چوہدری سے ہمارا سوال تھا کہ میڈیکل سپلائیز کی کمی کی بات ہوتی ہے تو ان کے پاس درکار ساز و سامان کی صورت کیا ہے اور جو اقدامات کئے جا رہے ہیں کیا وہ اس وبا پر قابو پانے کے لئے کافی ہیں تو ڈاکٹر چوہدری کا کہنا تھا۔
’’ان کے پاس فی الوقت سامان کافی ہے۔ وینٹی لیٹرز بھی ہیں۔ ضروری اقدامات کر لئے گئے ہیں اور ڈاکٹروں کے لئے بھی حفاطتی ساز و سامان کی کمی نہیں۔ لیکن ابھی یہ وبا یہاں اپنی انتہا تک نہیں پہنچی۔ نیویارک میں مریضوں کی بڑی تعداد کی وجہ سے مسئلہ درپیش ہے۔
ڈاکٹر ساجد چوہدری نے بتایا کہ ہم ’’اپنا‘ (امریکہ میں پاکستانی ڈاکٹروں کی تنظیم) کی طرف سے ماسک فراہم کر رہے ہیں۔ ایک جگہ پر ماسک پہنچا دیے گئے ہیں اور آئندہ ہفتے دوسری جگہوں پر بھی پہنچا دیں گے۔ مئی کے پہلے ہفتے میں فلوریڈا میں کرونا وائرس کی وبا کے انتہا پر پہنچنے کی توقع ہے تو اس وقت دیکھنا ہو گا لیکن اس وقت تک چین سے سامان کی فراہمی ہو جائے گی‘‘۔
ہمارے اس سوال کے جواب میں کہ موجودہ اقدامات کے ساتھ جب لاک ڈاؤن ہے مختلف ریاستوں میں آمد و رفت پر پابندی ہے، پروازیں نہیں ہیں تو وبا پر کب تک قابو پانا ممکن ہو سکتا ہے۔
ڈاکٹر چوہدری کہتے ہیں کہ ’’وہ ذاتی طور پر مطمئن نہیں ہیں۔ یہ اقدامات کافی نہیں۔ بہت شروع میں لاک ڈاؤن ہونا چاہئے تھا اور آمد و رفت پر پابندیاں لگانا ضروری تھا۔ اب بھی وائرس لوگوں کے ایک سے دوسری جگہ جانے کی وجہ سے پھیلا ہے۔ لوگ جب نیویارک، نیو جرسی سے دوسری ریاستوں میں گئے یا سفر کے بعد واپس لوٹے یا دوستوں اور عزیز و اقارب سے ملاقات کو پہنچے تو ان میں بڑی تعداد ایسے لوگوں کی ہوتی ہے جن میں وائرس سے متاثر ہونے کی علامتیں نہیں ہوتیں اور وہ جانے بغیر اس کو پھیلانے کا باعث بن گئے۔ میرا ایک پیغام تو یہ ہے کہ یہ بیماری ایک سے دوسرے تک پھیلتی ہے۔ اس لئے جہاں تک ہو سکے رابطوں سے گریز کیا جائے۔ اگر سماجی دوری اور گھر کے اندر رہنے کی سخت پابندی کی جائے تو اس پر قابو جلد پایا جا سکے گا۔
آخر میں ڈاکٹر ساجد چوہدری نے کہا کہ ان کا پیغام یہ ہے کہ لوگوں کو بہت زیادہ گھبرانے کی ضرورت نہیں۔ اس مرض میں نوے فیصد افراد خود ہی ٹھیک ہو جاتے ہیں۔میرے پاس آنے والے بہت سارے مریض مستحکم حالت میں ہوتے ہیں اور ٹھیک ہو جاتے ہیں۔
وائرس سے متاثرہ دو سے تین فیصد افراد کی ہلاکت ہو سکتی ہے اور تقریباً پانچ فیصد کو وینٹی لیٹرز کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ ہمیں خوفناک اس لئے لگ رہی ہے کیونکہ تھوڑے وقت میں اس سے متاثرہ افراد کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ مریضوں کی جو تعداد سال بھر میں ہوتی ہے وہ چند ہفتوں میں سامنے آئی ہے۔ تو لوگوں کو حوصلہ رکھنا چاہئے۔ گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے لیکن احتیاط بہت ضروری ہے جس سے نہ صرف آپ خود محفوظ رہیں گے بلکہ دوسروں کو بھی محفوظ رکھ سکیں گے۔
ڈاکٹر چوہدری نے کام کی صورت میں باہر جاتے ہوئے ماسک استعمال کرنے کا مشورہ بھی دیا اور توقع ہے کہ وائٹ ہاؤس آج جمعہ کے روز لوگوں کیلئے ماسک پہننے کی سخت ہدایت جاری کرے گا تاکہ اس وائرس کے پھلاؤ کو روکا جا سکے۔
امریکہ میں لگ بھگ تیس ریاستوں اور ڈسٹرکٹ آف کولمبیا یعنی ڈی سی نے شہریوں کو گھروں میں رہنے کا حکم جاری کر رکھا ہے اور صرف ضروری اشیا اور کاموں کیلئے ہی گھر سے نکلنے کی اجازت دی ہے۔
کرونا وائرس وبا کی صورت حال کے باعث امریکہ میں گذشتہ دوہفتوں کے دوران دس لاکھ سے زائد افراد نے ملازمتیں ختم ہونے کے باعث مالی امداد کیلئے سوشل سیکورٹی دفاتر میں درخواستیں جمع کرائی ہیں۔