کروناوائرس سے بچاو کے اقدامات نے امریکہ میں معیشت کا پہیہ جام کرکے رکھ دیا ہے۔ بڑی بڑی کمپنیوں کو اگر اربوں ڈالر کے نقصان کا سامنا ہے تو وہیں چھوٹے کاروبار سے منسلک لوگ بھی تباہی کے دہانے پر پہنچ چکے ہیں۔ دوسری جانب، روزانہ کی بنیاد پر کمانے اور گھر کا خرچ پورا کرنے والے عام امریکیوں کی حالت سب سے زیادہ سنگین ہے۔ انھیں فاقہ کشی اور بے گھری کے خدشات نے گھیرے میں لے لیا ہے۔ عام شہری حکومت سے ہنگامی پیکج کی توقع کر رہے ہیں۔
فہیم میاں نیویارک میں صحافت کے پیشہ سے وابستہ ہیں۔ لیکن، اپنے گھریلو اخراجات پورے کرنے کے لئے اوبر ٹیکسی چلاتے ہیں۔ فہیم میاں کا کہنا ہے کہ کرونا وائرس نے امریکہ کے اس سب سے بڑے شہر کو ویران کرکے رکھ دیا ہے۔
انھوں نے بتایا کہ اسکول دفاتر عملا بند ہیں اور ہوٹلوں میں لوگوں کو مل بیٹھ کر کھانا کھانے کی اجازت نہیں۔ سڑکیں ویران ہیں۔ نہ صرف سیاح غائب ہیں بلکہ مقامی شہری بھی گھروں میں دبک کر بیٹھ گئے جس وجہ سے ٹیکسی ڈرائیوروں کے گھروں میں فاقہ کشی کی صورتحال پیدا ہوگئی ہے۔
بقول فہیم میاں ''جو لوگ دہاڑی پیشہ ہیں جیسا کہ وہ لوگ جو کیب چلاتے ہیں یا دیگر کام کرتے ہیں روز کنواں کھود کر پانی پینے والے لوگ ہیں، ان کی دہاڑی ختم ہوچکی ہے۔ جو کیب ڈرائیور ہے جس کی گاڑی کا خرچہ روز کا اسی سے سو ڈالر ہے وہ دو سو ڈھائی سو دہاڑی لگاتا ہے تو اس کو سو ڈیڑھ سو ڈالر بچ جاتے تھے۔ اب اس وقت وہ پورا دن بھی گاڑی لے کر سڑک پر گھومتا رہے تو مسافر سڑک پر ہے ہی نہیں یعنی وہ گاڑی کی لائبیلٹی جو اس کے اوپر ہے وہ بھی وہ پوری نہیں کر پا رہا''۔
فہیم میاں کہتے ہیں کہ گزارا مشکل ہوگیا ہے۔ وہ ایک کمیونٹی ویب ٹی وی بھی چلاتے ہیں جن پر کم از کم 9 افراد ملازمت کرتے ہیں۔ اس ٹیلی ویژن کے اخراجات مقامی سطح پر اشتہارات سے پورے کئے جاتے ہیں۔ لیکن، اب چونکہ ہوٹل اور دیگر بزنس بند ہیں تو لوگ اشتہارات بھی نہیں دے رہے۔
انھوں نے کہا کہ ٹیلی ویژن پہلے بھی ان کے گھریلو اخراجات پورے کرنے کے لئے کافی نہیں تھا اس لئے انھیں اوبر ٹیکسی بھی چلانی پڑتی تھی۔ اب تو نہ سڑک پر سواری ہے اور نہ ہی لوگ اشتہار دے رہے ہیں۔ لیکن، اللہ پر ایمان ہے وہی رزق دے گا۔ اسی توقع پر سڑک پر گاڑی لئے کھڑا ہوں۔ اگر سواری ملی تو اٹھا لیں گے ورنہ اللہ ہی ہمارا وارث ہے''۔
کرونا وائرس نے صرف دو دنوں میں امریکی اسٹاک مارکیٹ کو ایک اعشاریہ سات کھرب ڈالر کا نقصان پہنچایا۔ ماہرین کے مطابق، دنیا بھر میں سیاحت کی صنعت بری طرح متاثر ہو رہی ہے اور اسے پانچ اعشاریہ انتیس کھرب ڈالر کے نقصان کا تخمینہ ہے، جس میں بڑا حصہ امریکہ کا ہے۔ سیاحت کے شعبے سے مسنلک دیگر شعبہ جات میں روز مرہ بنیاد پر کمانے والوں میں ٹیکسی ڈرائیور کا بڑا حصہ ہے۔ نیویارک کے ایک اور ٹیکسی ڈرائیور محمد نسیم مطالبہ کرتے ہیں کہ حکومت بڑی بڑی کمپنیوں کے ساتھ ساتھ عام لوگوں کے لئے بھی ریلیف پیکج دے۔
محمد نسیم کے بقول، ایسا ماحول ہے کہ سمجھ نہیں آ رہا۔ بچے اسکول نہیں جا رہے۔ انھیں کھانا پینا دینا ہے۔ گاڑی کی قسطیں دینی ہیں۔ لوگ کافی پریشان ہیں کہ کیا ہوگا؟ لیکن، لوگ ہم سب آس لگائے بیٹھے ہیں کہ حکومت کوئی پیکج دے گی اگر پیکج نہ ملا تو بڑی پریشانی ہوگی۔
محمد نسیم کہتے ہیں کہ روزگار نہ ہونے کے برابر ہے۔ بس، اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہماری حالت پر توجہ دے۔
ممتاز بٹ ورجنیا میں ایک ہوٹل چلاتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ ان کا کاروبار نصف رہ گیا ہے۔ ان کی بھی خواہش ہے کہ حکومت چھوٹے کاروبار والوں کو کوئی ریلیف پیکج دے۔
ممتاز بٹ کے بقول، لوگ بہت گھبرائے ہوئے ہیں۔ گھروں سے نکل نہیں رہے۔ گھروں میں کھانے پینے کی اشیا کا ذخیرہ کر لیا ہے۔ اب لوگ گھروں سے نکل نہیں رہے کھانے پینے نہیں آرہے تو ہوٹل کا کاروبار نصف رہ گیا ہے۔ حکومت کم از کم ایک دو ماہ کا کرایہ ادا کرے یا کوئی اور پیکج دے ورنہ لوگ بہت گھبرائے ہوئے ہیں۔
ممتاز بٹ کہتے ہیں ان کے پاس کام کرنے والے ڈیلی ویجز ملازمین بہت پریشانی کا شکار ہیں۔ کام نہ ہونے کی وجہ سے انھیں کام نہیں مل رہا۔ وہ گھروں کا کرایہ کہاں سے لائیں اور کھانے پینے کا خرچہ کیسے پورا کریں۔
امریکہ میں کرونا کے مریض سامنے آنے کے بعد بڑے پیمانے پر حفاظتی اقدامات کا ابھی آغاز ہے۔ لوگوں کو خدشہ ہے کہ یہ بے یقینی کی صورتحال کئی ہفتے جاری رہ سکتی ہے، جس کے دوران ملک بھر میں خوراک کا بحران بھی پیدا ہو سکتا ہے۔
عام لوگوں کا رہن سہن ایسا ہے کہ وہ بچت نہیں کرتے۔ اس لئے آمدن کے ذرائع بند ہونے کے بعد اگر حکومتی سطح پر ان کی مدد نہ کی گئی تو بہت سے لوگ فاقہ کشی کا بھی شکار ہوسکتے ہیں جو شائد کرونا وائرس سے کہیں زیادہ مہلک ثابت ہو۔