گزشتہ دنوں واشنگٹن میں جنوبی ایشیائی فلموں کا ایک میلہ ساوتھ ایشین فلم فیسٹیول واشنگٹن ڈی سی کے نام سے سجایا گیا جس میں پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش اور نیپال سے آنے والی فلمیں پیش کی گئیں۔ واشنگٹن ڈی سی میں اس میلے کا یہ دوسرا سال ہے۔ میلے میں کئی مقامی اور بین الاقوامی فنکاروں نے شرکت کی۔ بھارت سے معروف فلم اداکار فارق شیخ سمیت سنجے سُوری، پوجا بترا اور ساریتا جوشی نے میلے میں اپنی اپنی فلموں کو پروموٹ کیا۔ جبکہ پاکستان سے آنے والی واحد فیچر فلم ’ لمحہ ‘ تھی جس کی نوجوان پروڈیسر مہر جعفری نے بھی میلےمیں خاص طور پر شرکت کی۔
پاکستانی فلم ’لمحہ‘ نے اس میلے کی بہترین فیچر فلم کا ایوارڈ جیتا۔ فلم کے ڈائریکٹر منصور مجاہد ہیں جبکہ کہانی ثمر نکس نے لکھی ہے۔ نمایاں فنکاروں میں محب مرزا، آمنہ شیخ اور گوہر رشید شامل ہیں۔ اس فلم نے گزشتہ سال نیو یارک فلم فیسٹیول میں بھی دو ایوارڈز جیتے تھے جن میں پیپلز چوائس بیسٹ فلم اور بہترین اداکارہ کا ایوارڈ آمنہ شیخ کو ملا تھا۔ فلم کی کہانی کراچی میں رہنے والے ایک شادی شدہ جوڑے کے گرد گھومتی ہے جو اپنے کم سن بچے کی نا گہانی موت کا صدمہ برداشت کر رہے ہیں۔ فلم میں انسانی جذبوں اور معاشرتی اقدار کے زندگی پر اثرات کو نہایت مہارت سے پیش کیا گیا ہے۔
فلم کی پروڈیسر مہر جعفری نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ فلم کو کو پاکستان سے باہر بہت پذیرائی ملی ہے۔ لندن، نیو یارک اور وینکوور کے بعد واشنگٹن ڈی سی کے فلم فیسٹیول میں شائقین نے فلم کو بہت سراہا ہے اور فلم کو کئی ایوارڈز بھی ملے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں فلموں کے لیے بہت زیادہ ٹیلنٹ موجود ہے، ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ نئے آنے والے فنکاروں کو مواقع دیئے جائیں۔ اور سنجیدہ اور معاشرتی رویّوں پر مبنی کہانیوں کو پیش کرنے کی حوصلہ افزائی بھی کی جائے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اگرچہ فلم کئی ممالک میں پیش کی جا چکی ہے لیکن پاکستان میں کسی سینما میں پیش نہ کئے جاسکنے کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں نہ صرف سینما گھروں کی کمی ہے بلکہ سینما مالکان بڑے بجٹ اور کمرشل فلموں کو پیش کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ پورے پاکستان میں صرف 10 ڈیجیٹل سکرینز ہیں اور اسی وجہ سے کم بجٹ کی نان کمرشل فلمیں سینما گھروں تک نہیں پہنچ پاتیں۔
حال ہی میں ریلیز ہونے والی فلم ’یہ جوانی ہے دیوانی ‘ میں ایک اہم کردار ادا کرنے والے بالی وُوڈ کے معروف فنکار فارق شیخ کی میلے میں پیش کی جانے کم بجٹ کی فلم ’لیسن امایا‘ نے بہترین دائریکٹر کا ایوارڈ جیتا۔ فارُوق شیخ ہندی سینما میں چھوٹی اور کم بجٹ کی نان کمرشل فلموں میں کام کرنےکے حوالے سے جانے جاتے ہیں۔ وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے فارُوق شیخ کا کہنا تھا کہ یہی وجہ ہے کہ وہ اس فلم فیسٹیول میں آئے ہیں تاکہ نئے چہروں کی حوصلہ افزائی کی جاسکے۔ نئے ڈائریکٹرز اور پروڈیسرز کی فلموں کو سراہا جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس طرح کے فلمی میلوں کے دیار ِغیر میں منعقد ہونے کے خاص طور پر دو فوائد ہیں۔ ایک تو یہ کہ جنوبی ایشیائی تارکین ِوطن کو ’مین سٹریم سینما‘ سے ہٹ کر بننے والی فلموں سے شناسائی کا موقع مل رہا ہے۔ دوسرا فائدہ یہ ہے کہ اس طرح مقامی ٹیلنٹ کو سامنے آنے کا موقع بھی مل رہا ہے۔ یہاں بسنے والے لوگ شارٹ فلموں اور ڈاکیومنڑی فلموں کے ذریعے اپنی کہانیوں کو پیش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
میلے میں پیش کی جانے والی ایک شارٹ فلم ’ یاترا ‘ کو بھی خوب پذیرائی ملی۔ فلم کی خاص بات مقامی پاکستانی اور بھارتی فنکاروں کا مل کر کام کرنا تھا۔ فلم کی ڈائریکٹر دیپتی مہتا ہیں جبکہ فلم کے نمایاں فنکاروں میں پاکستانی نژاد امریکی نور نغمی اور ان کی بیٹی آمنی نغمی شامل ہیں۔ فلم کی کہانی ایک ایسی لڑکی کے گرد گھومتی ہے جو بھارت سے اپنے ایک کزن سے شادی کرکے امریکہ آتی ہے اور یہاں آکر اسے کن مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ نور نغمی نے کہا کہ انھیں اس فلم میں کام کرنے پر خوشی ہے کیونکہ یہ فلم تارکین ِوطن کی کہانی بیان کرتی ہے، چاہے وہ پاکستان سے آئے ہوں یا بھارت سے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس طرح کے فلمی میلےخاص طور پر چھوٹی فلموں کے لیے نہایت فائدہ مند ہیں۔
اس میلے کا انعقاد سیزرز پروڈکشنز نے کیا تھا جس کے ڈائریکٹر منوج سنگھ اور ان کی شریک حیات ہیں۔ اُن دونوں کا کہنا تھا وہ چاہتے تھے کہ مقامی شائقین کو فیچر فلمیں پیش کرنے کے ساتھ ساتھ ایسی فلموں کو بھی سامنے لایا جائے جنہیں عام طور پر نظر انداز کردیا جاتا ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ انہوں نے اس میلے میں پچھلے سال 18 فلمیں پیش کی تھیں جس کے بعد چار فلموں کو تھیٹر میں ریلیز کیا گیا تھا۔ منوج سنگھ کا کہنا تھا کہ، ’ان کی کوشش یہی ہے کہ چھوٹے پیمانے کو بننے والی فلموں پر کام کرنے والے با صلاحیت لوگوں کو سامنے لایا جائے ۔جبکہ بڑے اور جانے پہچانے اداکاروں کو بلانے کا مقصد عوام کی دلچسبی کو بڑھانا اور یہاں بسنے والے تارکین وطن کو اپنے من پسند اداکاروں سے ملنے کا موقع فراہم کرنا بھی ہے۔‘
پوجا بترا اور سنجے سُوری نے اس میلے میں خاص طور پر شرکت کی اور نا صرف تین دن جاری رہنے والے اس میلے میں شائقین کے ساتھ مل جل کر فلمیں دیکھیں بلکہ فلمی صنعت کے حوالے سے منعقد کی جانے والی مختلف ورکشاپس میں مقامی فنکاروں اور شائقین کے ساتھ کام کیا۔
پاکستانی فلم ’لمحہ‘ نے اس میلے کی بہترین فیچر فلم کا ایوارڈ جیتا۔ فلم کے ڈائریکٹر منصور مجاہد ہیں جبکہ کہانی ثمر نکس نے لکھی ہے۔ نمایاں فنکاروں میں محب مرزا، آمنہ شیخ اور گوہر رشید شامل ہیں۔ اس فلم نے گزشتہ سال نیو یارک فلم فیسٹیول میں بھی دو ایوارڈز جیتے تھے جن میں پیپلز چوائس بیسٹ فلم اور بہترین اداکارہ کا ایوارڈ آمنہ شیخ کو ملا تھا۔ فلم کی کہانی کراچی میں رہنے والے ایک شادی شدہ جوڑے کے گرد گھومتی ہے جو اپنے کم سن بچے کی نا گہانی موت کا صدمہ برداشت کر رہے ہیں۔ فلم میں انسانی جذبوں اور معاشرتی اقدار کے زندگی پر اثرات کو نہایت مہارت سے پیش کیا گیا ہے۔
فلم کی پروڈیسر مہر جعفری نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ فلم کو کو پاکستان سے باہر بہت پذیرائی ملی ہے۔ لندن، نیو یارک اور وینکوور کے بعد واشنگٹن ڈی سی کے فلم فیسٹیول میں شائقین نے فلم کو بہت سراہا ہے اور فلم کو کئی ایوارڈز بھی ملے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں فلموں کے لیے بہت زیادہ ٹیلنٹ موجود ہے، ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ نئے آنے والے فنکاروں کو مواقع دیئے جائیں۔ اور سنجیدہ اور معاشرتی رویّوں پر مبنی کہانیوں کو پیش کرنے کی حوصلہ افزائی بھی کی جائے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اگرچہ فلم کئی ممالک میں پیش کی جا چکی ہے لیکن پاکستان میں کسی سینما میں پیش نہ کئے جاسکنے کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں نہ صرف سینما گھروں کی کمی ہے بلکہ سینما مالکان بڑے بجٹ اور کمرشل فلموں کو پیش کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ پورے پاکستان میں صرف 10 ڈیجیٹل سکرینز ہیں اور اسی وجہ سے کم بجٹ کی نان کمرشل فلمیں سینما گھروں تک نہیں پہنچ پاتیں۔
حال ہی میں ریلیز ہونے والی فلم ’یہ جوانی ہے دیوانی ‘ میں ایک اہم کردار ادا کرنے والے بالی وُوڈ کے معروف فنکار فارق شیخ کی میلے میں پیش کی جانے کم بجٹ کی فلم ’لیسن امایا‘ نے بہترین دائریکٹر کا ایوارڈ جیتا۔ فارُوق شیخ ہندی سینما میں چھوٹی اور کم بجٹ کی نان کمرشل فلموں میں کام کرنےکے حوالے سے جانے جاتے ہیں۔ وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے فارُوق شیخ کا کہنا تھا کہ یہی وجہ ہے کہ وہ اس فلم فیسٹیول میں آئے ہیں تاکہ نئے چہروں کی حوصلہ افزائی کی جاسکے۔ نئے ڈائریکٹرز اور پروڈیسرز کی فلموں کو سراہا جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس طرح کے فلمی میلوں کے دیار ِغیر میں منعقد ہونے کے خاص طور پر دو فوائد ہیں۔ ایک تو یہ کہ جنوبی ایشیائی تارکین ِوطن کو ’مین سٹریم سینما‘ سے ہٹ کر بننے والی فلموں سے شناسائی کا موقع مل رہا ہے۔ دوسرا فائدہ یہ ہے کہ اس طرح مقامی ٹیلنٹ کو سامنے آنے کا موقع بھی مل رہا ہے۔ یہاں بسنے والے لوگ شارٹ فلموں اور ڈاکیومنڑی فلموں کے ذریعے اپنی کہانیوں کو پیش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
میلے میں پیش کی جانے والی ایک شارٹ فلم ’ یاترا ‘ کو بھی خوب پذیرائی ملی۔ فلم کی خاص بات مقامی پاکستانی اور بھارتی فنکاروں کا مل کر کام کرنا تھا۔ فلم کی ڈائریکٹر دیپتی مہتا ہیں جبکہ فلم کے نمایاں فنکاروں میں پاکستانی نژاد امریکی نور نغمی اور ان کی بیٹی آمنی نغمی شامل ہیں۔ فلم کی کہانی ایک ایسی لڑکی کے گرد گھومتی ہے جو بھارت سے اپنے ایک کزن سے شادی کرکے امریکہ آتی ہے اور یہاں آکر اسے کن مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ نور نغمی نے کہا کہ انھیں اس فلم میں کام کرنے پر خوشی ہے کیونکہ یہ فلم تارکین ِوطن کی کہانی بیان کرتی ہے، چاہے وہ پاکستان سے آئے ہوں یا بھارت سے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس طرح کے فلمی میلےخاص طور پر چھوٹی فلموں کے لیے نہایت فائدہ مند ہیں۔
اس میلے کا انعقاد سیزرز پروڈکشنز نے کیا تھا جس کے ڈائریکٹر منوج سنگھ اور ان کی شریک حیات ہیں۔ اُن دونوں کا کہنا تھا وہ چاہتے تھے کہ مقامی شائقین کو فیچر فلمیں پیش کرنے کے ساتھ ساتھ ایسی فلموں کو بھی سامنے لایا جائے جنہیں عام طور پر نظر انداز کردیا جاتا ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ انہوں نے اس میلے میں پچھلے سال 18 فلمیں پیش کی تھیں جس کے بعد چار فلموں کو تھیٹر میں ریلیز کیا گیا تھا۔ منوج سنگھ کا کہنا تھا کہ، ’ان کی کوشش یہی ہے کہ چھوٹے پیمانے کو بننے والی فلموں پر کام کرنے والے با صلاحیت لوگوں کو سامنے لایا جائے ۔جبکہ بڑے اور جانے پہچانے اداکاروں کو بلانے کا مقصد عوام کی دلچسبی کو بڑھانا اور یہاں بسنے والے تارکین وطن کو اپنے من پسند اداکاروں سے ملنے کا موقع فراہم کرنا بھی ہے۔‘
پوجا بترا اور سنجے سُوری نے اس میلے میں خاص طور پر شرکت کی اور نا صرف تین دن جاری رہنے والے اس میلے میں شائقین کے ساتھ مل جل کر فلمیں دیکھیں بلکہ فلمی صنعت کے حوالے سے منعقد کی جانے والی مختلف ورکشاپس میں مقامی فنکاروں اور شائقین کے ساتھ کام کیا۔