گذشتہ چند دنوں سے دنیا بھر کی طرح امریکہ میں بھی ’ایبولا وائرس‘ اور اس کے ممکنہ اثرات کے حوالے سے بحث جاری ہے۔ اس بحث نے امریکہ میں ایبولا وائرس میں مبتلا دو مریضوں کی تصدیق اور ایک مریض کے انتقال کے بعد طول پکڑا۔
گذشتہ ہفتے امریکی ریاست ٹیکسس میں ایک ایسی نرس میں ایبولا وائرس کی تصدیق کی گئی ہے جو ایبولا سے متاثرہ ایک مریض کی نگہداشت کر رہی تھی۔
ایبولا ایک خطرناک اور مہلک وائرس ہے جس کی علامات میں بخار، تھکاوٹ، شدید سر درد، کمزوری، قے، پیٹ میں درد اور جسم سے خون بہنا شامل ہیں۔ ابھی تک ایبولا سے متعلق کوئی طریقہ ِعلاج یا ویکسین نہیں دریافت کی جا سکی۔
کیا امریکہ جیسا ترقی یافتہ ملک اس وباٴ سے بچاؤ کے لیے تیار ہے؟ اور اس حوالے سے کیا ممکنہ اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں؟ ۔۔۔ یہ موضوع گذشتہ کچھ دنوں سے امریکہ میں زور پکڑتا دکھائی دیا ہے۔ واشنگٹن ڈی سی میں گذشتہ ہفتے کیپیٹل ہل پر کانگریس کے ارکان نے امریکی ادارہ ِصحت اور چند دیگر اداروں کی اہم شخصیات سے امریکہ میں ایبولا وائرس کے پھیلاؤ اور امریکی شعبہ ِصحت کی جانب سے ممکنہ غفلت پر سوالات اٹھائے۔۔۔
اسی موضوع پر پیر کے روز واشنگٹن ڈی سی میں ’نیوزیم‘ میں مقامی ریڈیو سٹیشن ’ڈبلیو ٹی او پی‘ کے تعاون سے ایک ایسی تقریب کا اہتمام کیا گیا جس میں طبی ماہرین نے ایبولا وائرس پر تفصیل سے روشنی ڈالی۔ ڈاکٹر انتھونی فاؤچی، ڈاکٹر شیرفسٹین اس اور ڈاکٹر جیس گڈ مین اس تقریب کے مہمان شرکاء تھے۔ ڈاکٹر انتھونی فاؤچی امریکی ادارہ ِصحت کے سربراہ ہیں، ڈاکٹر شیرفسٹین ریاست میری لینڈ میں ہیلتھ اینڈ مینٹل ہائی جین کے سیکریٹری ہیں جبکہ ڈاکٹر جیس گڈمین جارج ٹاؤن یونیورسٹی میں پروفیسر ہیں۔
امریکہ کے ان تینوں طبی ماہرین سے ایبولا کے حوالے سے مختلف سوالات کیے گئے اور ان سے پوچھا گیا کہ آیا امریکہ اس وائرس سے نمٹنے کے لیے عملی طور پر تیار ہے، کیا امریکہ کے پاس ایسے حفاظتی اقدامات موجود ہیں کہ ایبولا میں مبتلا مریضوں کی دیکھ بھال کی جا سکے اور کیا ایبولا ایک شخص سے دوسرے شخص کو لگ سکتا ہے۔
ڈاکٹر انتھونی فاؤچی کا کہنا تھا کہ اس بات کے شواہد موجود نہیں کہ ایبولا وائرس متعدی مرض ہے اور نہ ہی اس بات کا امکان موجود ہے کہ ہوائی سفر کی وجہ سے ایبولا وائرس پھیل سکتا ہے۔ تاہم، ماہرین اس بات پر متفق دکھائی دئیے کہ ایسے ممالک جہاں پر ایبولا کی وباٴ پھوٹ پڑی ہے، وہاں سے ہوائی سفر کرکے دوسرے ممالک میں جانے والے مسافروں کی کڑی نگرانی ہونی چاہیئے تاکہ یہ مرض مزید نہ پھیل سکے۔
تمام ماہرین اس بات پر بھی متفق دکھائی دیے کہ ایبولا کے مرض کی روک تھام کے لیے ویکسین ایک اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔ ڈاکٹر جیس گڈ مین کا کہنا تھا کہ گو کہ ابھی تک اس مرض کے لیے کوئی ویکسین تیار نہیں کی جا سکی، مگر اس بارے میں کام جاری ہے اور اس سلسلے میں احتیاط برتنے کی ضرورت ہے۔
ڈاکٹر گڈمین کا کہنا تھا کہ، ’تجرباتی طور پر ایبولا سے متاثرہ مریضوں کو ZMapp نامی دوا دی گئی ہے، جس سے کئی زندگیاں بچائی جا سکی ہیں۔ مگر، ابھی اس سلسلے میں مزید تجربات ہونا باقی ہیں۔‘