واشنگٹن —
مصر کی عبوری حکومت نے ایران پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ فوج کی جانب سے ملک کے پہلے منتخب صدر محمد مرسی کی حکومت کا تختہ الٹنے کی مذمت کرکے مصر کے داخلی معاملات میں مداخلت کر رہا ہے۔
رواں ہفتے ایران نے مصر ی صدر کی برطرفی کو "باعثِ تشویش" قرار دیتے ہوئے اندیشہ ظاہر کیا تھا کہ مصر میں آنے والی تبدیلی کے پیچھے "غیر ملکی ہاتھ" سرگرم ہوسکتے ہیں۔
جمعرات کو مصر کی عبوری حکومت نے ایرانی بیان پر "سخت ناپسندیدگی" ظاہر کرتے ہوئے اسے مصر کے داخلی معاملات میں "ناقابلِ قبول مداخلت" قرار دیا ہے۔
مصر کی وزارتِ خارجہ نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران کے ردِ عمل سے ظاہر ہوتا ہے کہ تہران حکومت کو "ان جمہوری تبدیلیوں کی نوعیت کا سرے سے علم ہی نہیں جن سے مصر اس وقت گزر رہا ہے"۔
خیال رہے کہ مصر نے اس سے قبل ترکی کے خلاف بھی اسی نوعیت کا سخت ردِ عمل ظاہر کیا تھا جس نے صدر مرسی کی برطرفی پر مصری فوج کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔
ترکی اور ایران کے برعکس امریکہ اور دیگر مغربی ممالک نے مصر میں آنے والے غیر جمہوری تبدیلی پر انتہائی محتاط ردِ عمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے بیانات میں فوج کی جانب سے منتخب صدر کی برطرفی کو "فوجی بغاوت" قرار دینے سے گریز کیا ہے۔
فوجی اقدام کو بغاوت قرار دینے کی صورت میں امریکہ اور یورپی یونین مصر کو دی جانے والی امداد روکنے کے پابند ہوتے۔ خیال رہے کہ امریکہ اس وقت مصر کو سالانہ ایک ارب 30 کروڑ ڈالرز امداد کی مد میں دے رہا ہے۔
مصر کی عبوری حکومت کی جانب سے ایران کے خلاف حالیہ سخت بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ دونوں ممالک کے تعلقات میں ایک بار پھر سرد مہری در آئی ہے جو محمد مرسی کے ایک سالہ دورِ اقتدار میں بہتر ہوئے تھے۔
مصر اور ایران کے درمیان تعلقات 1979ء میں آنے والے ایرانی انقلاب کے بعد اس وقت خراب ہوگئے تھے جب اس وقت کی مصری حکومت نے انقلاب کے نتیجے میں برطرف ہونے والے شاہِ ایران کو پناہ دی تھی۔
سنی العقیدہ دیگر عرب ممالک کی طرح مصر میں بھی شیعہ ایران کے خلاف ناپسندیدگی کے جذبات پائے جاتے ہیں لیکن عرب دنیا کی سب سے بڑی اسلام پسند تنظیم 'اخوان المسلمون' سے تعلق رکھنے والے صدر محمد مرسی نے گزشتہ برس اقتدار سنبھالنے کے بعد ایران کے ساتھ تعلقات بحال کرنے کی کامیاب کوششیں کی تھی۔
دونوں ممالک کے تعلقات میں نمایاں بہتری آنے کے بعد رواں سال فروری میں ایران کے صدر محمود احمدی نژاد نے قاہرہ کا دورہ بھی کیا تھا۔ وہ گزشتہ تین دہائیوں میں مصر کا دورہ کرنے والے ایران کے پہلے صدر تھے۔
مصر کے تاریخی طورپر خلیجی عرب ریاستوں کے ساتھ مضبوط تعلقات رہے ہیں جن کے حکمران ایران کی جانب سے خطے میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کی کوششوں سے خائف رہتے ہیں۔
تجزیہ کاروں کے بقول غالباً یہی وجہ ہے کہ خلیجی ممالک – سعودی عرب، کویت اور متحدہ عرب امارات - کی حکومتوں نے محمد مرسی کے حکومت کی برطرفی کا خیرمقدم کیا ہے اور قاہرہ کی عبوری حکومت کو 12 ارب ڈالر سے زائد کی امداد اور قرضے دینے کا اعلان کیا ہے۔
رواں ہفتے ایران نے مصر ی صدر کی برطرفی کو "باعثِ تشویش" قرار دیتے ہوئے اندیشہ ظاہر کیا تھا کہ مصر میں آنے والی تبدیلی کے پیچھے "غیر ملکی ہاتھ" سرگرم ہوسکتے ہیں۔
جمعرات کو مصر کی عبوری حکومت نے ایرانی بیان پر "سخت ناپسندیدگی" ظاہر کرتے ہوئے اسے مصر کے داخلی معاملات میں "ناقابلِ قبول مداخلت" قرار دیا ہے۔
مصر کی وزارتِ خارجہ نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران کے ردِ عمل سے ظاہر ہوتا ہے کہ تہران حکومت کو "ان جمہوری تبدیلیوں کی نوعیت کا سرے سے علم ہی نہیں جن سے مصر اس وقت گزر رہا ہے"۔
خیال رہے کہ مصر نے اس سے قبل ترکی کے خلاف بھی اسی نوعیت کا سخت ردِ عمل ظاہر کیا تھا جس نے صدر مرسی کی برطرفی پر مصری فوج کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔
ترکی اور ایران کے برعکس امریکہ اور دیگر مغربی ممالک نے مصر میں آنے والے غیر جمہوری تبدیلی پر انتہائی محتاط ردِ عمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے بیانات میں فوج کی جانب سے منتخب صدر کی برطرفی کو "فوجی بغاوت" قرار دینے سے گریز کیا ہے۔
فوجی اقدام کو بغاوت قرار دینے کی صورت میں امریکہ اور یورپی یونین مصر کو دی جانے والی امداد روکنے کے پابند ہوتے۔ خیال رہے کہ امریکہ اس وقت مصر کو سالانہ ایک ارب 30 کروڑ ڈالرز امداد کی مد میں دے رہا ہے۔
مصر کی عبوری حکومت کی جانب سے ایران کے خلاف حالیہ سخت بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ دونوں ممالک کے تعلقات میں ایک بار پھر سرد مہری در آئی ہے جو محمد مرسی کے ایک سالہ دورِ اقتدار میں بہتر ہوئے تھے۔
مصر اور ایران کے درمیان تعلقات 1979ء میں آنے والے ایرانی انقلاب کے بعد اس وقت خراب ہوگئے تھے جب اس وقت کی مصری حکومت نے انقلاب کے نتیجے میں برطرف ہونے والے شاہِ ایران کو پناہ دی تھی۔
سنی العقیدہ دیگر عرب ممالک کی طرح مصر میں بھی شیعہ ایران کے خلاف ناپسندیدگی کے جذبات پائے جاتے ہیں لیکن عرب دنیا کی سب سے بڑی اسلام پسند تنظیم 'اخوان المسلمون' سے تعلق رکھنے والے صدر محمد مرسی نے گزشتہ برس اقتدار سنبھالنے کے بعد ایران کے ساتھ تعلقات بحال کرنے کی کامیاب کوششیں کی تھی۔
دونوں ممالک کے تعلقات میں نمایاں بہتری آنے کے بعد رواں سال فروری میں ایران کے صدر محمود احمدی نژاد نے قاہرہ کا دورہ بھی کیا تھا۔ وہ گزشتہ تین دہائیوں میں مصر کا دورہ کرنے والے ایران کے پہلے صدر تھے۔
مصر کے تاریخی طورپر خلیجی عرب ریاستوں کے ساتھ مضبوط تعلقات رہے ہیں جن کے حکمران ایران کی جانب سے خطے میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کی کوششوں سے خائف رہتے ہیں۔
تجزیہ کاروں کے بقول غالباً یہی وجہ ہے کہ خلیجی ممالک – سعودی عرب، کویت اور متحدہ عرب امارات - کی حکومتوں نے محمد مرسی کے حکومت کی برطرفی کا خیرمقدم کیا ہے اور قاہرہ کی عبوری حکومت کو 12 ارب ڈالر سے زائد کی امداد اور قرضے دینے کا اعلان کیا ہے۔