پاکستان کی سابق حکمراں جماعت پیپلزپارٹی کئی دہائیوں بعد پہلی مرتبہ گیارہ مئی کے انتخابات بھٹو خاندان کی قیادت کے بغیر لڑے گی۔
آصف علی زرداری صدر کے عہدے پر فائز ہونے کے سبب سیاسی سرگرمیوں میں حصہ نہیں لے سکیں گے، جبکہ پارٹی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری مطلوبہ عمر کو نہیں پہنچے اس لئے الیکشن نہیں لڑسکتے۔ بختاور بھٹو اور آصفہ بھٹو بھی چھوٹی ہیں جبکہ سیکورٹی خدشات کے سبب بلاول انتخابی مہم میں بھی صرف دور رہ کر ہی شرکت کرسکیں گے۔ اس صورتحال میں یہ بحث زور پکڑ گئی ہے کہ انتخابی مہم کی قیادت کون کرے گا؟
پاکستان کی سیاست میں تقریباً 45 سال سے بھٹو خاندان انتہائی اہمیت کا حامل ہے اور اسی نام پر پیپلزپارٹی کو متعدد بار اقتدار مل چکا ہے۔ لیکن، اس جماعت کو بڑا دھچکا دسمبر 2007ء میں اس وقت لگا تھا جب بے نظیر بھٹو کو راولپنڈی کے بڑے عوامی اجتماع میں قتل کر دیا گیا۔
بینظیر کے قتل کے بعد ان کے اور موجودہ صدر آصف علی زرداری کے صاحبزادے بلاول بھٹو زرداری کو پیپلزپارٹی کا چیئرمین مقرر کیا گیا۔ گزشتہ سال 27 دسمبر کو انہیں ان کے والد صدر آصف علی زرداری نے سیاست میں باقاعدہ طور پر متعارف کروایا۔ بلاول نے اپنی والدہ کی برسی پر انتہائی ولولہ انگیز خطاب کیا، جس کے بعد امید ظاہر کی جا رہی تھی کہ وہ انتخابی مہم میں توجہ کا مرکز ہوں گے۔
لیکن دو روز پہلے، بلاول بھٹو زرداری اچانک بیرون ملک چلے گئے۔ بھارتی میڈیا نے بلاول کی انتہائی اہم موڑ پر بیرون ملک روانگی کو اپنے والد، صدر زرداری سے اختلافات کو قرار دیا ، اگرچہ پیپلزپارٹی نے اس خبر کی تردید کی ہے لیکن ساتھ یہ بھی واضح کیا ہے کہ بلاول بھٹو زرداری سیکیورٹی خدشات کے پیش نظر انتخابی مہم کے دوران بڑے بڑے جلسوں میں نہیں جائیں گے بلکہ ٹیلی فونک خطاب کریں گے۔
مبصرین اس تمام تر تناظر میں انتخابی مہم کو سابق حکمران جماعت کیلئے ایک بڑا امتحان قرار دے رہے ہیں۔ کیونکہ، صدر آصف علی زرداری آئینی طور پر کسی انتخابی جلسے میں شرکت نہیں کر سکتے؛ پھر یہ کہ اس حوالے سے عدالتی فیصلے بھی آ چکے ہیں۔
مبصرین کا خیال ہے کہ گزشتہ پانچ سالوں کے دوران پیپلزپارٹی کی حکومت کو جہاں پارٹی کارکردگی کاجواب دینا ہے، وہیں مہنگائی، بیروز گاری، لوڈ شیڈنگ، سی این جی بحران اور کرپشن سمیت کئی دیگر سوالات بھی اس کے سامنے آئیں گے۔ ایسی صورتحال میں پیپلزپارٹی کو ذوالفقار علی بھٹو ، نصرت بھٹو اور بے نظیر بھٹو کی طرح کی کوئی کرشمہ ساز شخصیت درکار ہے۔ بلاول بھٹو یہ خلاپُر کرسکتے تھے، لیکن ان کے اچانک برطانیہ چلے جانے کے سبب یہ خلا باقی ہی رہے گا۔
اہم ترین سوال یہ ہے کہ قومی سطح پر اور چاروں صوبوں میں پاکستان کی نمائندگی کون کرے گا؟ پیپلزپارٹی کی جانب سے سابق وزرائے اعظم راجہ پرویز اشرف اور یوسف رضا گیلانی سمیت امین فہیم کے نام لیے جا رہے ہیں۔ لیکن، حالات کا جائزہ لیا جائے تو مذکورہ تینوں رہنماوٴں کیلئے یہ حالات ساز گار نظر نہیں آتے۔
یوسف رضا گیلانی سوئس کیس میں سپریم کورٹ کی جانب سے نا اہل ہو چکے ہیں۔
لہذا، ناقدین ان کی شخصیت کے سحر کو زیادہ سے زیادہ جنوبی پنجاب تک محدود دیکھ رہے ہیں۔ راجا پرویز اشرف کرائے کے بجلی گھروں کے معاملات میں بدعنوانی کیس کے سائے سے نکل نہیں پا رہے اور سپریم کورٹ نے انہیں توہین عدالت کا نوٹس جاری کر رکھا ہے۔ لہذا، اگر مقدمات کے چکر سے نکل کر وہ انتخابی مہم کو وقت دے بھی پائے تووسطی پنجاب کے چند شہروں تک ہی پارٹی کی نمائندگی کر سکیں گے۔
امین فہیم کی بات کی جائے تو ان کے دامن پر بھی این آئی سی ایل کیس میں کرپشن کا دھبہ لگا ہوا ہے اور سپریم کورٹ نے چالان میں ان کا نام شامل کرنے کیلئے ایف آئی اے کو ایک ہفتے کا وقت دے رکھا ہے جس کے دو روز گزر چکے ہیں۔ ایسی صورتحال میں مضبوط گڑھ سندھ میں بھی مہم چلانا ایک سوالیہ نشان بن چکا ہے۔ بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں بھی کوئی واضح حکمت عملی نظر نہیں آ رہی اور بظاہر یہی لگ رہا ہے کہ وہاں کی مقامی قیادت ہی مہم چلائے گی۔
آصف علی زرداری صدر کے عہدے پر فائز ہونے کے سبب سیاسی سرگرمیوں میں حصہ نہیں لے سکیں گے، جبکہ پارٹی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری مطلوبہ عمر کو نہیں پہنچے اس لئے الیکشن نہیں لڑسکتے۔ بختاور بھٹو اور آصفہ بھٹو بھی چھوٹی ہیں جبکہ سیکورٹی خدشات کے سبب بلاول انتخابی مہم میں بھی صرف دور رہ کر ہی شرکت کرسکیں گے۔ اس صورتحال میں یہ بحث زور پکڑ گئی ہے کہ انتخابی مہم کی قیادت کون کرے گا؟
پاکستان کی سیاست میں تقریباً 45 سال سے بھٹو خاندان انتہائی اہمیت کا حامل ہے اور اسی نام پر پیپلزپارٹی کو متعدد بار اقتدار مل چکا ہے۔ لیکن، اس جماعت کو بڑا دھچکا دسمبر 2007ء میں اس وقت لگا تھا جب بے نظیر بھٹو کو راولپنڈی کے بڑے عوامی اجتماع میں قتل کر دیا گیا۔
بینظیر کے قتل کے بعد ان کے اور موجودہ صدر آصف علی زرداری کے صاحبزادے بلاول بھٹو زرداری کو پیپلزپارٹی کا چیئرمین مقرر کیا گیا۔ گزشتہ سال 27 دسمبر کو انہیں ان کے والد صدر آصف علی زرداری نے سیاست میں باقاعدہ طور پر متعارف کروایا۔ بلاول نے اپنی والدہ کی برسی پر انتہائی ولولہ انگیز خطاب کیا، جس کے بعد امید ظاہر کی جا رہی تھی کہ وہ انتخابی مہم میں توجہ کا مرکز ہوں گے۔
لیکن دو روز پہلے، بلاول بھٹو زرداری اچانک بیرون ملک چلے گئے۔ بھارتی میڈیا نے بلاول کی انتہائی اہم موڑ پر بیرون ملک روانگی کو اپنے والد، صدر زرداری سے اختلافات کو قرار دیا ، اگرچہ پیپلزپارٹی نے اس خبر کی تردید کی ہے لیکن ساتھ یہ بھی واضح کیا ہے کہ بلاول بھٹو زرداری سیکیورٹی خدشات کے پیش نظر انتخابی مہم کے دوران بڑے بڑے جلسوں میں نہیں جائیں گے بلکہ ٹیلی فونک خطاب کریں گے۔
مبصرین اس تمام تر تناظر میں انتخابی مہم کو سابق حکمران جماعت کیلئے ایک بڑا امتحان قرار دے رہے ہیں۔ کیونکہ، صدر آصف علی زرداری آئینی طور پر کسی انتخابی جلسے میں شرکت نہیں کر سکتے؛ پھر یہ کہ اس حوالے سے عدالتی فیصلے بھی آ چکے ہیں۔
مبصرین کا خیال ہے کہ گزشتہ پانچ سالوں کے دوران پیپلزپارٹی کی حکومت کو جہاں پارٹی کارکردگی کاجواب دینا ہے، وہیں مہنگائی، بیروز گاری، لوڈ شیڈنگ، سی این جی بحران اور کرپشن سمیت کئی دیگر سوالات بھی اس کے سامنے آئیں گے۔ ایسی صورتحال میں پیپلزپارٹی کو ذوالفقار علی بھٹو ، نصرت بھٹو اور بے نظیر بھٹو کی طرح کی کوئی کرشمہ ساز شخصیت درکار ہے۔ بلاول بھٹو یہ خلاپُر کرسکتے تھے، لیکن ان کے اچانک برطانیہ چلے جانے کے سبب یہ خلا باقی ہی رہے گا۔
اہم ترین سوال یہ ہے کہ قومی سطح پر اور چاروں صوبوں میں پاکستان کی نمائندگی کون کرے گا؟ پیپلزپارٹی کی جانب سے سابق وزرائے اعظم راجہ پرویز اشرف اور یوسف رضا گیلانی سمیت امین فہیم کے نام لیے جا رہے ہیں۔ لیکن، حالات کا جائزہ لیا جائے تو مذکورہ تینوں رہنماوٴں کیلئے یہ حالات ساز گار نظر نہیں آتے۔
یوسف رضا گیلانی سوئس کیس میں سپریم کورٹ کی جانب سے نا اہل ہو چکے ہیں۔
لہذا، ناقدین ان کی شخصیت کے سحر کو زیادہ سے زیادہ جنوبی پنجاب تک محدود دیکھ رہے ہیں۔ راجا پرویز اشرف کرائے کے بجلی گھروں کے معاملات میں بدعنوانی کیس کے سائے سے نکل نہیں پا رہے اور سپریم کورٹ نے انہیں توہین عدالت کا نوٹس جاری کر رکھا ہے۔ لہذا، اگر مقدمات کے چکر سے نکل کر وہ انتخابی مہم کو وقت دے بھی پائے تووسطی پنجاب کے چند شہروں تک ہی پارٹی کی نمائندگی کر سکیں گے۔
امین فہیم کی بات کی جائے تو ان کے دامن پر بھی این آئی سی ایل کیس میں کرپشن کا دھبہ لگا ہوا ہے اور سپریم کورٹ نے چالان میں ان کا نام شامل کرنے کیلئے ایف آئی اے کو ایک ہفتے کا وقت دے رکھا ہے جس کے دو روز گزر چکے ہیں۔ ایسی صورتحال میں مضبوط گڑھ سندھ میں بھی مہم چلانا ایک سوالیہ نشان بن چکا ہے۔ بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں بھی کوئی واضح حکمت عملی نظر نہیں آ رہی اور بظاہر یہی لگ رہا ہے کہ وہاں کی مقامی قیادت ہی مہم چلائے گی۔