|
یورپ میں امریکہ کے اتحادیوں نے نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی دوسری مدتِ صدارت میں ٹرانس اٹلانٹک باہمی تعلقات سے متعلق اندیشوں اور خدشات کے باوجود ان کی کامیابی پر مبارک باد کے پیغامات دیے ہیں۔
برِ اعظم یورپ میں برطانیہ کو امریکہ کا سب سے قریبی اتحادی سمجھا جاتا ہے اور دونوں ممالک کے باہمی تعلق کو ’’اسپیشل ریلیشن شپ‘‘ کا نام بھی دیا جاتا ہے۔
تاہم برطانوی وزیرِ اعظم کیئر اسٹارمر کے ٹرمپ کے ساتھ تعلق کی اچھی ابتدا نہیں ہوئی کیوں کہ گزشتہ ماہ اسٹارمر کی لیبر پارٹی کے بعض حکام نے کاملا ہیرس کو انتخابی مہم پر مشاورت کی پیش کش کی تھی۔
اس سے قطع نظر اسٹارمر ان عالمی رہنماؤں میں شامل ہیں جنھوں نے سب سے پہلے ڈونلڈ ٹرمپ کو انتخابات میں کامیابی پر مبارک باد دی ہے۔
اپنے پیغام میں برطانوی وزیرِ اعظم نے کہا کہ وہ آنے والے برسوں میں ٹرمپ کے ساتھ کام کرنے کے منتظر ہیں۔ بطور قریبی اتحادی آزادی، جمہوریت کی مشترکہ اقدار کے دفاع کے لیے شانہ بہ شانہ کام کریں گے۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ ٹرانس اٹلانٹک میں امریکہ اور برطانیہ کا ’خصوصی تعلق‘ آگے بڑھے گا۔
'تبدیلیوں کے لیے تیار رہیں'
جرمنی کے چانسلر اولاف شولز نے ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی پر اپنے ایک بیان میں کہا کہ یورپ کو تبدیلیوں کے لیے تیار رہنا چاہیے۔
انہوں نے کہا ڈونلڈ ٹرمپ کی قیادت میں بننے والی حکومت کے تحت بہت سی چیزیں تبدیل ہوں گی اور ٹرمپ کئی بار اس بارے میں اپنا مؤقف عوامی سطح پر بھی واضح کر چکے ہیں۔
جرمن چانسلر نے امریکہ سے باہمی تعلقات مستحکم رکھنے کے عزم کا اظہار کرنے کے ساتھ کہا کہ اس اتحاد میں مشترکہ تعاون ان سیکیورٹی خطرات سے متعلق بھی جاری رہے گا جو نیٹو کے نزدیک خطے کو روس سے درپیش ہیں۔
روس کا ردِ عمل
ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی پر روس نے سرد مہری کے ساتھ ردِ عمل ظاہر کیا ہے۔
بدھ کو روس کے حکومتی مرکز کریملن کے ترجمان دمتری پیسکوف نے رپورٹرز سے بذریعہ فون کال بتایا کہ روس اور امریکہ کے تعلقات مزید خراب نہیں ہو سکتے۔ کیوں کہ یہ پہلے تاریخ کی نچلی ترین سطح پر ہیں۔ انہوں نے کہا کہ تعلقات کا انحصار امریکہ کی نئی قیادت پر بھی ہو گا۔
نیٹو کی توقعات
اپنے پہلے دورِ صدارت میں ٹرمپ نے امریکہ کو نیٹو اتحاد سے نکالنے کی دھمکی دی تھی۔ ان کا دعویٰ رہا ہے کہ نیٹو میں شامل ممالک دفاعی اخراجات میں اپنا حصہ ادا نہیں کرتے اور امریکہ کی عسکری قوت ہی پر اکتفا کرتے ہیں۔
ٹرمپ امریکہ کی جانب سے روسی جارحیت کا مقابلہ کرنے والے یوکرین کی امداد کے ناقد رہے ہیں۔ خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ ٹرمپ کیف کی اقتصادی مدد روک سکتے ہیں۔
تاہم بدھ کو اپنے ایک بیان میں نیٹو کے سیکریٹری جنرل مارک رٹ نے توقع ظاہر کی ہے کہ ٹرمپ یورپ کو درپیش سیکیورٹی خطرات کے خلاف اتحاد کو مضبوط کریں گے۔
ٹرمپ کے پہلے دورِ صدارت میں یورپی کمیشن کی صدر ارسلا وان ڈر لائن جرمنی کی وزیرِ دفاع تھیں اور ٹرمپ نیٹو کے دفاعی اخراجات کے اہداف پورے نہ کرنے پر جرمنی کی شدید تنقید کرتے آئے ہیں۔
یورپی کمیشن کی سربراہ نے بھی اپنے بیان میں ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ مضبوط ٹرانس اٹلانٹک ایجنڈے پر کام کرنے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔
گرم جوشی اور محتاط ردِ عمل
ہنگری کے صدر وکٹر اوربن نے ٹرمپ کو الیکشن میں کامیابی کی مبارک باد دیتے ہوئے گرم جوشی کا مظاہرہ کیا ہے اور اسے ان کی ’’شاندار فتح‘‘ اور مغربی سیاست کی تاریخ کا سب سے بڑا ’’سیاسی کم بیک‘‘ قرار دیا ہے۔
فرانس کے صدر ایمانوئیل میکرون اور ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان ان کے پہلے دورِ صدارت ہی سے تعلقات اتار چڑھاؤ کا شکار رہے ہیں۔
میکرون نے 2017 میں فرانس کے قومی دن کی تقریب میں بھی ٹرمپ کو مدعو کیا لیکن دونوں کے درمیان آن لائن تکرار بھی ہوتی رہی۔
بدھ کو اپنے پیغام میں میکرون نے کہا کہ وہ ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ اپنے اپنے مقاصد کے ساتھ باہمی احترام اور مزید امن و استحکام کی خاطر کام کے لیے تیار ہیں۔
آئندہ کیا ہونے والا ہے؟
واشنگٹن کی امریکن یونیورسٹی کے ٹرانس اٹلانٹک پالیسی سینٹر کے کو ڈائریکٹر گیرٹ مارٹن کا کہنا ہے کہ یورپی اتحادیوں کی گرمی جوشی کے اظہار کے باوجود انہیں ایک مشکل سفر کے لیے تیار ہو جانا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ ٹرمپ کا گزشتہ چار سالہ دور مسلسل اتار چڑھاؤ اور بے چینی کا رہا جس میں اتحاد اور ہم آہنگی نہیں تھی۔ ان کے بقول یہ اس وقت کے حالات تھے جب یورپ کے لیے زیادہ مشکل وقت نہیں تھا۔
مارٹن نے کہا کہ اس وقت یورپ کو گزشتہ ڈھائی برس سے جاری ایک جنگ کا سامنا ہے۔ تاہم ہمیں دوبارہ سے کشیدگی میں اضافے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔
ماحولیات پر مذاکرات
یورپ میں یہ گہری تشویش بھی پائی جاتی ہے کہ ٹرمپ کی دوسری صدارت میں ماحولیاتی تبدیلی کے مقابلے کے جاری عالمی کوششیں متاثر ہوں گی اور آئندہ ہفتے آذر بائیجان میں ہونے والی کوپ 29 سمٹ پر بھی امریکی الیکشن میں ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی چھائی رہے گی۔
ٹرمپ نے 2017 میں امریکہ کو ماحولیاتی تبدیلیوں کے معاہدۂ پیرس سے علیحدہ کر لیا تھا اور اس کی یہ وجہ بتائی تھی کہ امریکہ کے لیے کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج میں کمی سے متعلق رکھے گئے اہداف غیر شفاف ہیں۔
جو بائیڈن نے 2021 میں صدارت سنبھالنے کے پہلے دن ہی اس معاہدے میں دوبارہ شمولیت اختیار کر لی تھی۔
اس بات کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ ٹرمپ ایک بار پھر اس معاہدے سے الگ ہو جائیں گے اگرچہ سائنس دان خبردار کرتے ہیں کہ فوری اقدامات نہیں کیے گئے تو گلوبل وارمنگ کے اثرات تباہ کُن ہوں گے۔
فورم