حسیب علی کوزئی
صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے افغانستان میں امریکی افواج سے متعلق کوئی عام پالیسی بیان نہیں دیا، لیکن گذشتہ ہفتے طالبان کا ایک مطالبہ سامنے آیا ہے۔
ایک کھلے خط میں، جسے گروپ نے ذرائع ابلاغ کو جاری کیا ہے، ترجمان نے ٹرمپ پر زور دیا کہ وہ مبینہ ’’بے مقصد‘‘ اور ’’ناقابلِ فتح‘‘ لڑائی ختم کر دیں۔
صدر ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم کے دوران، افغانستان اور پاکستان کے بارے میں شاید ہی کوئی بات کی تھی، حالانکہ ایک طویل عرصے سے دونوں ملک امریکی خارجہ پالیسی کی ترجیحات کا حصہ رہے ہیں، جنھیں امداد میں اب تک اربوں ڈالر فراہم کیے جا چکے ہیں۔
ایسے میں جب افغان طالبان کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ پر تشویش میں اضافہ ہو رہا ہے، ادھر داعش سمیت دیگر شدت پسند گروپ کو تقویت میسر آ رہی ہے، خارجہ پالیسی کے ماہرین اس بات پر منقسم نظر آتے ہیں آیا تنازع کے بارے میں نئی انتظامیہ کیا کرنے کا ارادہ رکھتی ہے جس کی ذمہ داری تیسرے امریکی صدر پر آن پڑی ہے۔
فیصلے ٹرمپ کے حوالے
سبک دوش ہونے والے صدر براک اوباما نے کہا تھا کہ اُن کے جانشین ہی اگلے امریکی اقدام کے بارے میں فیصلہ کریں گے۔
گذشتہ سال جولائی میں، اوباما نے کہا تھا کہ ’’صدر اور کمانڈر اِن چیف کی حیثیت سے میں نے یہ بابت واضح کردی ہے کہ میں نہیں چاہوں گا کہ افغانستان محفوظ پناہ گاہ بن جائے، جہاں سے دیگر ملکوں پر حملے ہوں۔ اس کے برعکس، سال کے اواخر تک جب ہماری فوجوں کی تعداد 5500 تک پہنچ جائے، اگلے سال افغانستان میں اندازاً 8400 فوجیں تعینات رکھی جائیں گی، جب تک میری انتظامیہ کی میعاد باقی ہے‘‘۔
اِس فیصلے کے پسِ پردہ، صدر نے افغانستان کی ’’پریشان کُن صورتِ حال‘‘ اور لاحق ’’طالبان خطرے‘‘ کا حوالہ دیا۔
تاہم، خارجہ پالیسی کے ماہرین نے ملے جلے انداز کی پیش گوئی کی ہے آیا ٹرمپ انتظامیہ کس قسم کے فیصلے کرے گی۔
لیزا کرٹس، ’ہیرٹیج فاؤنڈیشن‘ میں ’مرکز برائے ایشیائی مطالعہ‘ میں سینئر رسرچ فیلو ہیں۔ بقول اُن کے، ’’اگر نئی انتظامیہ واقعی یہ چاہتی ہے کہ افغانستان میں پیش رفت حاصل کی جائے، تو اُسے طالبان اور حقانی نیٹ ورک کے محفوظ ٹھکانوں کے بارے میں کچھ کرنا ہوگا، جو ابھی تک پاکستان کے اندر موجود ہیں‘‘۔
کرٹس پُرامید ہیں کہ امریکہ افغانستان سے روابط جاری رکھے گا۔
کرٹس نے مزید کہا ہے کہ ’’ہم توقع کر سکتے ہیں کہ نئی انتظامیہ افغانستان سے متعلق اپنی حکمتِ عملی پیش نظر رکھ کر موٴقف تشکیل دے گی، جو اصل صورت حال کے تناظر کو سامنے رکھے، یہ نہیں کہ دھیان داخلی سیاسی ترجیحات پر رکھا جائے، جو معاملہ ہمیں اوباما انتظامیہ کے دور میں نظر آتا تھا‘‘۔
افغانستان میں تعینات رہنے والے سابق سفیر اور معیشت اور کاروباری امور سے متعلق نائب وزیر خارجہ، اَرل انتھونی وائین نے حتمی تاریخ سے متعلق کرٹس کی دلیل سے اتفاق کیا۔
وائین کے بقول، ’’ہم میں سے بہت سے، جنھوں نے افغانستان میں فرائض انجام دیے ہیں، اور اُس کام میں اب بھی دلچسپی رکھتے ہیں، توقع ہے کہ ایک پائیدار ساجھے داری ابھر کر سامنے آئے گی اور برمحل ہونے کا عزم قائم رہے گا‘‘۔
ہوسکتا ہے ٹرمپ پاکستان پر دھیان مرتکز رکھیں
کچھ دانشوروں کی رائے ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ اپنا دھیان پاکستان کی جانب موڑ سکتی ہے۔ اپنی انتخابی مہم کے دوران، ٹرمپ نے کہا تھا کہ افغانستان نہیں، پاکستان کی صورت ِحال خطے کی سکیورٹی کا اہم مسئلہ ہے۔
ربیکا زِمرمن ’رینڈ کارپوریشن‘ میں پالیسی تحقیق کار ہیں۔ بقول اُن کے، ’’ہم جانتے ہیں کہ انتخابی مہم کے دوران یا بعد میں، ٹرمپ نے افغانستان سے متعلق بہت زیادہ تذکرہ نہیں کیا ؛ لیکن خطے کے بارے میں جو کچھ اُنھوں نے کہا ہے اس سے اس بات کا پتا چلتا ہے کہ وہ بنیادی طور پر پاکستان سے متعلق حکمتِ عملی کے معاملات میں دلچسپی رکھتے ہیں‘‘۔
تاہم، ٹھومس ایچ جانسن نے اِس بارے میں متنبہ کیا ہے۔ وہ بحریہ کے ’پوسٹ گریجوئیشن اسکول‘ کے مطالعہ برائے ثقافت و تنازع کے سربراہ ہیں۔
جانسن کے بقول، ’’اُن کی پاکستان کے وزیر اعظم نواز شریف سے ابتدائی گفتگو حیران کُن تھی؛ جب کہ اُن کا پاکستان سے متعلق مؤقف، افغان پالیسیوں پر اہم طور پر اثرانداز ہوگا‘‘۔
جانسن نے مزید کہا کہ نیٹو کے بارے میں اُن کے بیانات کو دیکھا جائے تو جرمنی اور دیگر روایتی امریکی سلامتی سے متعلق معاہدے اور اتحادی، نئے امریکی صدر کے لیے ماضی کی پالیسیاں بے معنی سی لگتی ہیں۔
معروف پاکستانی صحافی اور مصنف، احمد رشید نے کہا ہے کہ ’’اب جب کہ طالبان کو ایران کی پشت پناہی بھی میسر ہے، جو بات نظر آتی ہے وہ ہے مزید گنجلک علاقائی صورت حال۔ وہ روس کے ساتھ مذاکرات کر رہے ہیں۔ وہ چین سے بات چیت کرتے رہے ہیں۔ اب متعدد علاقائی حلقے کار فرما نظر آتے ہیں‘‘۔
’سینٹر فور اسٹریٹجک اینڈ انٹرنیشنل اسٹڈیز‘ کے قومی سلامتی کے تجزیہ کار، انتھونی کورڈسمن کا بھی یہی خیال ہے کہ جب افغانستان سے معاملات طے کرنے کا معاملہ ہو تو امریکہ کو پاکستان کے بارے میں تشویش ہونی چاہیئے۔
وہ کہتے ہیں کہ افغانستان کی صورت حال دگرگوں ہے۔ بقول اُن کے، ’’میرے خیال میں ہماری نظریں ایک ایسے سال پر لگی ہوئی جب انتہائی شدید لڑائی کا امکان ہے۔ اب بہت کم امکان ہے کہ آپ اس قسم کے مذاکرات کرسکیں جن سے کوئی اہم اثر پڑ سکتا ہو یا کسی نتیجے پر پہنچا جا سکے‘‘۔
پاکستان پر مزید کر دکھانے پر زور
اپنے دفاع میں، پاکستان کی فوج اور سولین رہنما دلیل دیتے رہے ہیں کہ اُنھوں نے دہشت گردی کے خلاف لڑائی میں بہت قربانیاں دی ہیں، جس میں جان و مال کا نقصان شامل ہے۔
امریکی حکام پاکستان پر زور بار ڈالتے رہے کہ وہ مزید پیش رفت دکھائے۔
امریکی محکمہٴ خارجہ کے معاون ترجمان، مارک ٹونر نے کہا ہے کہ ’’ہم نے پیش رفت دیکھی ہے۔ ہم نے دیکھا ہے کہ اُنھوں نے محفوظ ٹھکانوں کو ختم کرنے کے سلسلے میں چند اقدامات کیے ہیں۔ لیکن، واضح ہے کہ مسئلہ اب بھی باقی ہے اور یہ فکر کا باعث ہے، جس پر ہم پاکستان کے ساتھ گفتگو جاری رکھے ہوئے ہیں‘‘۔
اسکاٹ وورڈن ’یو ایس انسٹی ٹیوٹ آف پیس‘ میں ایشیائی سینٹر کے سربراہ ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہنا ہے کہ پاکستان کو قائل کرنے کی ضرورت ہے۔ ’’میرے خیال میں، انعام اور جرمانے کا نظام لاگو کیا جائے۔ پاکستان پر دباؤ ڈالنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ اپنی حکمتِ عملی تبدیل کرے، تاکہ افغان امن عمل میں مدد مل سکے۔ لیکن اس کے لیے پاکستان کو کچھ کرنا ہوگا، تاکہ وہ اس کے فوائد اور مواقع سے مستفید ہو سکے‘‘۔