مدیحہ انور/ شہناز نفیس
ذرائع ابلاغ میں شائع ہونے والی اس رپورٹ پر رد عمل دیتے ہوئے کہ تعزیرات سے متعلق سلامتی کونسل کے وفد کے متوقع دورہٴ پاکستان کے دوان حکام اُنھیں کالعدم شدت پسند تنظیموں کے خلاف کیے جانے والے اقدامات سے آگاہ کریں گے؛ ناقدین کا کہنا ہے کہ ’’ہو سکتا ہے کہ یہ محض مطمئن کرنے کی ایک کوشش ہو‘‘۔
تجزیہ کار اس رپورٹ پر اپنا رد عمل ظاہر کر رہے تھے کہ اقوام متحدہ کی تعزیرات سے متعلق کمیٹی کا ایک وفد اُن افراد اور تنظیموں کے خلاف پاکستان کی جانب سے کیے گئے اقدامات کا جائزہ لینے کے لیے رواں ہفتے اسلام آباد کا دورہ کرے گا، جنھیں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل دہشت گرد قرار دے چکی ہے۔
یہ بات ’وائس آف امریکہ کی‘ شدت پسندی سے متعلق خبروں کے ڈیسک کی ایک رپورٹ میں کہی گئی ہے۔ یہ کمیٹی ایسے وقت پاکستان کا دورہ کر رہی ہے جب امریکہ اور بھارت کی طرف سے حافظ سعید کے خلاف کارروائی کرنے کے مطالبات سامنے آ رہے ہیں۔
مائیکل کوگلمن، واشنگٹن میں قائم ’ولسن سینٹر‘ کے تجزیہ کار ہیں۔ بقول اُن کے، ’’اطلاعات موصول ہوئی ہیں کہ پاکستان لشکر طیبہ، جماعت الدعوہ کےکئی ایک فلاحی اداروں کو بند کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ کیا واقعی ایسا ہوگا؟‘‘
کوگلمن نے مزید کہا کہ ’’اگر یہ خیراتی ادارے بند بھی کردیے جاتے ہیں، پھر بھی مستقبل میں مسائل کھڑے ہوسکتے ہیں‘‘۔
بقول اُن کے، ’’اگر اس ضمن میں پیش رفت ہوتی بھی ہے، تو میرے خیال میں ڈرنا چاہیئے، چونکہ اس کے فوری بعد ایک نئے قسم کا خیراتی گروپ یا نئی تنظیم سامنے آ سکتی ہے‘‘۔
عارف کمال، دہشت گردی کے عنوان پر امریکہ میں قائم جنوبی ایشیائی امور کے ایک ادارے کے ماہر ہیں۔ اُنھوں نے کوگلمن کے تجزئے سے اتفاق کرتے ہوئے، کہا ہے کہ اقوام متحدہ کی فہرست میں شامل متعدد دہشت گرد گروپ پاکستان میں آزادانہ طور پر کام کر رہے ہیں۔
جمال کے بقول، ’’اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی تعزیرات کی فہرست میں 27 تنظیمیں اور تقریباً 38 افراد شامل ہیں جو پاکستان میں کارفرما ہیں‘‘۔
اِن میں ’’جماعت الدعوہ، لشکر جھنگوی، تحریک طالبان پاکستان، لشکر طیبہ، فلاح انسانیت فاؤنڈیشن، القاعدہ اور لشکر طیبہ مشہور ہیں‘‘۔
رپورٹ کے مطابق، حکومت پاکستان کے اہل کار اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے وفد کےمتوقع دورے کو عام رواجی کہہ کر زیادہ اہمیت نہیں دے رہے ہیں۔
صوبہٴ پنجاب کے وزیر قانون رانا ثناٴ اللہ نے ’وائس آف امریکہ‘ کو بتایا کہ ’’اقوام متحدہ کی کمیٹی کے پاکستان کے دورے کا ہم خیرمقدم کریں گے، جو خود ملاحظہ کر سکیں گے کہ اقوام متحدہ کی جانب سے کالعدم قرار دی گئی دہشت گرد تنظیموں کے خلاف پاکستان نے کیا اقدام کیے ہیں۔ ہماری یہ کوشش ہوگی کہ ہم وفد کو زیادہ سے زیادہ سہولیات فراہم کریں‘‘۔
اُنھوں نے مزید کہا کہ ’’مجھے یقین ہے کہ اقوام متحدہ کا ادارہ ہماری کاوشوں اور قربانیوں کی جانب توجہ دے گا۔ ہم اقوام متحدہ کی تعزیرات پر مؤثر انداز سے عمل درآمد کرتے رہے ہیں‘‘۔
دیگر دہشت گرد گروپوں اور افراد کے علاوہ، اقوام متحدہ کی فہرست میں ’فلاح انسانیت فاؤنڈیشن‘ شامل ہے۔
بتایا جاتا ہے کہ فلاح انسانیت فاؤنڈیشن جماعت الدعوہ تنظیم کا ہی دوسرا رُخ ہے، جو غریب عوام کی فلاح کے روپ میں چندہ اکٹھا کرتا ہے۔ امریکہ نے جماعت الدعوہ اور فلاح انسانیت فاؤنڈیشن کو دہشت گرد تنظیمیں قرار دے رکھا ہے۔
حافظ سعید پاکستان کے مشرقی شہر لاہور میں رہتے ہیں۔ اِن اطلاعات پر کہ حکومت اُن کی تنظیموں پر بندش عائد کرنے کا ارادہ رکھتی ہے، بتایا جاتا ہے کہ اُنھوں نے ایک مقامی عدالت میں مقدمہ دائر کیا ہے جس سے حکومت اُنھیں گرفتار نہیں کرسکے گی یا جماعت الدعوہ یا فلاح انسانیت فاؤنڈیشن کے خلاف کوئی اقدام نہیں لیا جاسکے گا۔
کوگلمن جیسے چند اور ماہرین کا کہنا ہے کہ اقوام متحدہ کے وفد کے دورے کا وقت بہت اہمیت کا حامل ہے۔ پہلے ہی، اپنی سرزمین پر موجود دہشت گرد گروپوں کے خلاف مناسب اقدام نہ کرنے پر پاکستان کو امریکہ کی جانب سے بڑھتے ہوئے دباؤ کا سامنا ہے، جہاں سے یہ گروپ افغانستان میں موجود امریکی قیادت والی نیٹو افواج کے خلاف حملوں کی منصوبہ سازی کرتے ہیں۔
کوگلمن کے بقول ’’سوال یہ نہیں ہے آیا اقوام متحدہ کیا کرے گا۔۔۔ بلکہ اقوام متحدہ کی ٹیم کے نتائج کو امریکہ کس طرح استعمال کرے گا‘‘۔
اس سے قبل، امریکی محکمہٴ خارجہ کی خاتون ترجمان، ہیدر نوئرٹ نے ہفتہ وار اخباری بریفنگ میں پاکستانی وزیر اعظم خاقان عباسی کے بیان پر سخت رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے، جماعت الدعوہ کے سربراہ، حافظ سعید کے خلاف مقدمہ چلانے کا مطالبہ کیا تھا؛ ایسے میں جب اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی تعزیرات سے متعلق کمیٹی کا ایک وفد پاکستان کی جانب سے کیے گئے اقدامات کا جائزہ لینے کے لیے رواں ہفتے اسلام آباد پہنچنے والا ہے۔
اطلاعات کے مطابق، یہ وفد اُن افراد اور تنظیموں کےخلاف پاکستان کی طرف سے کیے گئے اقدامات کا جائزہ لے گا، جنھیں سلامتی کونسل دہشت گرد قرار دے چکا ہے۔ ذرائع ابلاغ میں شائع ہونے والی اطلاعات کے مطابق، پاکستانی حکام کالعدم شدت پسند تنظیموں کے خلاف کیے گئے اقدامات سے اقوام متحدہ کے وفد کو آگاہ کریں گے۔
اس سے قبل، وزیر اعظم خاقان عباسی جماعت الدعوہ اور اس کے زیر انتظام چلنے والے فلاحی ادارے، ’فلاح انسانیت فاؤنڈیشن‘ کے بارے میں کہہ چکے ہیں کہ حکومت اُن اداروں کو سرکاری کنٹرول میں لینے کے عزم پر قائم ہے، جن پر اقوام متحدہ نے تعزیرات عائد کر رکھی ہیں۔ اُنھوں نے یہ بات ایک بین الاقوامی خبررساں ادارے کو انٹرویو میں بتائی ہے۔
حافظ سعید ’جماعت الدعوہ‘ اور ’فلاح انسانیت فاؤنڈیشن‘ کے سربراہ ہیں اور اِن دونوں تنظیموں کو سلامتی کونسل کی تعزیرات سے متعلق کمیٹی دہشت گرد تنظیمیں قرار دے چکی ہے۔
نوئرٹ نے اخباری نمائندوں کو بتایا کہ ’’ہم نے حکومت پاکستان کو اپنے نکات اور تشویش واضح کر دی ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ قانون کی مکمل پاسداری کرتے ہوئے، (حافظ سعید) کے خلاف مقدمہ چلایا جائے گا‘‘؛ جب کہ خاقان عباسی نے رائٹرز کو بتایا کہ پاکستان حافظ سعید سے منسلک فلاحی اداروں کے خلاف اقدام لے گا۔
خاقان عباسی کے بقول، ’’ہاں۔ حکومت اُن تمام فلاحی اداروں کو اپنی تحویل میں لے گی جن پر تعزیرات عائد ہیں اور اِنھیں کام کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی‘‘۔