کراچی —
ایسے میں جب ٹارگٹ کلنگ، بھتہ خوری اور بم دھماکے عام ہیں، کراچی میں نئی طرز اور نہج کو رواج دینے کی فکر اور سعی کرنے والوں کی کوئی کمی نہیں۔ بدھ کو کراچی کے ایک ہوٹل میں عالمی معیار کا ’فیشن پاکستان ویک‘ کا آغاز ہوا، جس میں کئی مختلف فیشن ڈیزائنرز نے اپنے اپنے ڈیزائن کئے ہوئے کپڑوں کی نمائش کی۔
’وائس آف امریکہ‘ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے، ’فیشن پاکستان ویک‘ کی روح رواں، صنم چوہدری نے کہا کہ تین روز تک جاری رہنے والے اس فیشن ویک میں کراچی اور لاہور کے تقریباً 30 ڈئزائنرز حصہ لے رہے ہیں اور اس موقع پر دوسرے ممالک سے آیا ہوا میڈیا اور خریدار بھی ہیں۔
اس شو کے ڈائریکٹر اور مشہور ڈیزائنر حسن شہریار نے بتایا کہ یہ ان کا فیشن کی دنیا میں شرکت کا بیسواں سال ہے، اور ان کے خیال میں، پاکستانی فیشن انڈسٹری بہت تیزی سے ترقی کر رہی ہے۔
امریکہ میں پاکستان کی سابق سفیر کی حیثیت سے خدمات انجام دینے والی، شیری رحمان بھی اس موقع پر موجود تھیں۔ ’وائس آف امریکہ‘ سے بات کرتے ہوئے، اُن کا کہنا تھا کہ آج فیشن پاکستان ویک ایک بڑا ایونٹ بن چکا ہے اور اس کو حکومتی اور نجی شعبوں کی حمایت حاصل ہے، جسے مزید فروغ دیا جانا چاہئے۔ انھوں نے اس امید کا اظہار کیا کہ اس سے پاکستان کی ثقافت، فیشن اور ملبوسات کی صنعت کو بڑھاوا ملے گا۔
مشہور فوٹوگرافر، ٹپو جویری نے کہا کہ پاکستان کی فیشن انڈسٹری، عالمی معیار کی ہے اور وہ امید کرتے ہیں کہ مغربی خریدار اس طرف متوجہ ہونگے۔
پروگرام کے منتظمین میں سے ایک، نعمان عارفین ہیں۔ اُن کا کہنا تھا کہ اس طرح کے پروگراموں سے دنیا کو یہ پتا چلتا ہے کہ پانچوں انگلیاں برابر نہیں، اور اگر مٹھی بھر لوگوں کی وجہ سے ملک کا ایک برا امیج بن رہا ہے، تو باقی لوگوں کو چاہئے کہ اس طرح کے ایونٹس کر کے دنیا کو بتائیں کہ یہاں صرف دہشت گرد نہیں بستے۔
’گلیمر‘ سے بھرپور فیشن شوز میں ریمپ پر سب کی نظروں کا مرکز بننے والی موڈلز فیشن شو والے دن صبح سے ہی ریہرسل میں مصروف ہوجاتے ہیں اور اسٹیج کے پیچھے اور اسٹیج پر بہت زیادہ دباؤ کے عالم میں کام کرتے ہیں۔ لیکن، پاکستان کی صفہ اول کی ماڈلز میں سے ایک، نادیہ حسین کا کا کہنا تھا کہ، ’ٹیم ورک کی وجہ سے یہ مشکل آسان ہوجاتی ہے‘۔
نادیہ حسین کے بقول، اس طرح کے فیشن ایونٹس ملک کی عزت کا سوال ہوتے ہیں اور جب دنیا کا میڈیا موجود ہو تو کراچی کے حالات کی وجہ سے کام رک نہیں سکتا، کیوں کہ فیشن کی دنیا میں پاکستان کا ایک اچھا امیج ہے، اور فیشن انڈسٹری اس طرح کے حالات کے سامنے جھکے گی نہیں۔
’وائس آف امریکہ‘ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے، ’فیشن پاکستان ویک‘ کی روح رواں، صنم چوہدری نے کہا کہ تین روز تک جاری رہنے والے اس فیشن ویک میں کراچی اور لاہور کے تقریباً 30 ڈئزائنرز حصہ لے رہے ہیں اور اس موقع پر دوسرے ممالک سے آیا ہوا میڈیا اور خریدار بھی ہیں۔
اس شو کے ڈائریکٹر اور مشہور ڈیزائنر حسن شہریار نے بتایا کہ یہ ان کا فیشن کی دنیا میں شرکت کا بیسواں سال ہے، اور ان کے خیال میں، پاکستانی فیشن انڈسٹری بہت تیزی سے ترقی کر رہی ہے۔
امریکہ میں پاکستان کی سابق سفیر کی حیثیت سے خدمات انجام دینے والی، شیری رحمان بھی اس موقع پر موجود تھیں۔ ’وائس آف امریکہ‘ سے بات کرتے ہوئے، اُن کا کہنا تھا کہ آج فیشن پاکستان ویک ایک بڑا ایونٹ بن چکا ہے اور اس کو حکومتی اور نجی شعبوں کی حمایت حاصل ہے، جسے مزید فروغ دیا جانا چاہئے۔ انھوں نے اس امید کا اظہار کیا کہ اس سے پاکستان کی ثقافت، فیشن اور ملبوسات کی صنعت کو بڑھاوا ملے گا۔
مشہور فوٹوگرافر، ٹپو جویری نے کہا کہ پاکستان کی فیشن انڈسٹری، عالمی معیار کی ہے اور وہ امید کرتے ہیں کہ مغربی خریدار اس طرف متوجہ ہونگے۔
پروگرام کے منتظمین میں سے ایک، نعمان عارفین ہیں۔ اُن کا کہنا تھا کہ اس طرح کے پروگراموں سے دنیا کو یہ پتا چلتا ہے کہ پانچوں انگلیاں برابر نہیں، اور اگر مٹھی بھر لوگوں کی وجہ سے ملک کا ایک برا امیج بن رہا ہے، تو باقی لوگوں کو چاہئے کہ اس طرح کے ایونٹس کر کے دنیا کو بتائیں کہ یہاں صرف دہشت گرد نہیں بستے۔
’گلیمر‘ سے بھرپور فیشن شوز میں ریمپ پر سب کی نظروں کا مرکز بننے والی موڈلز فیشن شو والے دن صبح سے ہی ریہرسل میں مصروف ہوجاتے ہیں اور اسٹیج کے پیچھے اور اسٹیج پر بہت زیادہ دباؤ کے عالم میں کام کرتے ہیں۔ لیکن، پاکستان کی صفہ اول کی ماڈلز میں سے ایک، نادیہ حسین کا کا کہنا تھا کہ، ’ٹیم ورک کی وجہ سے یہ مشکل آسان ہوجاتی ہے‘۔
نادیہ حسین کے بقول، اس طرح کے فیشن ایونٹس ملک کی عزت کا سوال ہوتے ہیں اور جب دنیا کا میڈیا موجود ہو تو کراچی کے حالات کی وجہ سے کام رک نہیں سکتا، کیوں کہ فیشن کی دنیا میں پاکستان کا ایک اچھا امیج ہے، اور فیشن انڈسٹری اس طرح کے حالات کے سامنے جھکے گی نہیں۔