ایک روز پہلے تک زندگی کی گہماگہمیوں میں سانس لینے والی فاطمہ ثریا بجیا آخر کار جمعرات کی سہ پہر سرخ گلابوں کے بوجھ تلے ہمیشہ کے لئے محو خواب ہو گئیں۔ شہر وہی تھا مگر مقام مختلف۔
محمد علی ہاوٴسنگ سوسائٹی کے رہائشی مکان سے ڈیفنس فیز فور کے قبرستان تک انہوں نے اپنے ڈھیروں چاہنے والوں کے ہمراہ اور ان کے کاندھوں پر سفر کیا۔ لیکن کچھ دیر بعد ہی بجیا کو ان کے چاہنے والوں نے بھی تنہا چھوڑ کر واپسی کا راستہ لیا۔
۔۔۔قبر پر رہ گئی تھیں تو صرف دو تحریریں۔ جو ایک انگریزی روزنامے اور میڈیا ہاوٴس ’ڈان‘ کی طرف سے تھی تو دوسری انجمن ترقی اردو پاکستان کی جانب سے ۔۔۔بطور آخری تحفہ۔
بجیا کے بھائی اور’آپ اپنا تعارف‘ انور مقصود نے ایک روز پہلے ہی تمام لوگوں سے بجیا کی اس آخری خواہش کا اظہار کردیا تھا کہ وہ چاہتی تھیں مرنے کے بعد ان کی کوئی تصویر شائع اور نشر نہ کی جائے۔
شاید یہی وجہ تھی کہ مقامی میڈیا میں بجیا کی تدفین کا ذکر بس سرسری انداز میں ہی کیا گیا۔