اس سال امن کا نوبیل انعام جیتنے والی عراقی خاتون نادیہ مراد کی دستاویزی فلم’ آن ہر شولڈرز‘ 19 اکتوبر کو ریلیز ہو رہی ہے۔ فلم کا پرومو پہلے ہی منظرِ عام پر آچکا ہے۔
پرومو سوشل میڈیا پر موجود ہے اور نوبیل انعام کے اعلان کے ساتھ ہی اسے دیکھنے والوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔
فلم ’آن ہر شولڈرز‘ نہ صرف امریکہ اور برطانیہ کے تھیٹرز کی زینت بنے گی بلکہ دنیا کے کئی بڑے فلم فیسٹیولز کی بھی رونق ہوگی۔ ان میں ’فاریسٹ سٹی فلم فیسٹیول‘ بھی شامل ہے جو 24 سے 28 اکتوبر تک امریکہ میں جاری رہے گا۔
نادیہ کا تعلق عراق کی اقلیتی برادری ’یزیدی‘ سے ہے۔ فلم کے بارے میں نادیہ کا کہنا ہے کہ فلم میں انہوں نے اپنے ٹوٹے ہوئے خوابوں کو پیش کیا ہے اور اپنے قبیلے کی جدو جہد بیان کی ہے۔
ان کا یہ قبیلہ شمالی عراق میں آباد ہے جہاں کے ایک گاؤں میں نادیہ مراد 1993ء میں پیدا ہوئیں۔ اس گاؤں پر چار سال پہلے داعش کے جنگجو حملہ آور ہوئے اور اس پر قبضہ کرلیا۔
اس ظلم کے خلاف جس نے بھی آواز اٹھائی یا ان کا حکم نہیں مانا، اسے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ مرنے والوں میں نادیہ کی والدہ اور چھ بھائی بھی شامل تھے جب کہ نادیہ ان لڑکیوں میں شامل تھیں جنہیں جنگجوؤں نے اپنی کنیزیں بناکر آپس میں بانٹ لیا تھا۔
نوبیل انعام جیتنے کے بعد سے نہ صرف نادیہ مراد کی عالمی سطح پر شہرت میں اضافہ ہوا ہے بلکہ دنیا کے ہر ملک کا میڈیا ان پر گزری کہانی سامنے لا رہا ہے۔
نادیہ کو داعش کی تین ماہ کی قید میں ان گنت تکلیفوں اور اذیتوں کو سامنا کرنا پڑا تھا۔ اس دوران انہیں جسمانی اور جنسی تشدد کا نشانہ بھی بنایا جاتا رہا۔
آخر کار تین ماہ بعد قید سے رہائی ملی تو انہوں نے یہ سوچتے ہوئے کہ جن تکالیف اور اذیتوں کا انہوں نے سامنا کیا ہے کوئی اور لڑکی اس طرح کے حالات سے دوچار نہ ہو، جنسی تشدد کو بطور جنگی ہتھیار استعمال کرنے کے خلاف باقاعدہ ایک مہم شروع کی۔
اسی مہم پر انہیں امن کے نوبیل انعام سے نوازا گیا ہے۔
نادیہ کا کہنا ہے کہ وہ داعش کی دہشت گردی کا شکار ہونے والی لڑکی کے نام سے مشہور ہونا نہیں چاہتیں اور لوگوں کو یہ بھی بتانا نہیں چاہتیں کہ قید کے دوران ان پر کیا بیتی۔
اس کے برعکس ان کے بقول انہیں خود کو ایک بہترین ڈریس میکر، کھلاڑی، طالبہ، میک اپ آرٹسٹ یا کاشت کار کے طور پر متعارف کرانا پسند ہے۔
ان کی ایک کتاب ’آخری لڑکی‘ بھی شائع ہوچکی ہے۔ اس دوران وہ اقوامِ متحدہ کی انسانی اسمگلنگ کے خلاف خیر سگالی کی سفیر رہنے کے ساتھ ساتھ ’واکلیو ہیومن رائٹس ایوارڈ‘ اور ’سخاروف ایوارڈ‘ بھی حاصل کرنے میں کامیاب رہی ہیں۔
نادیہ اقوامِ متحدہ، امریکہ اور یورپ کے بہت سے فورمز سے خطاب بھی کرتی رہی ہیں۔