جنوبی کرہ ارض میں کرونا وائرس کی ممکنہ ویکسین کے انسانوں پر اولین تجربات کا آسٹریلیا میں آغاز ہوگیا ہے۔ میلبرن اور برسبین میں اس تجربے میں 18 سے 59 سال کے 131 رضاکار شریک ہیں۔
ممکنہ ویکسین کو این وی ایکس کوو 2373 کا نام دیا گیا ہے اور اسے امریکی بایوٹیک کمپنی نوواویکس نے تیار کیا ہے۔ کمپنی کے ماہرین نے چین میں وبا پھوٹنے کے بعد جنوری میں دوا پر کام شروع کر دیا تھا۔ ویکسین کا مقصد جسم کے مدافعتی نظام کو مضبوط اور وائرس کو بے اثر کرنے والی اینٹی باڈیز کو موثر بنانا ہے۔
اگر ویکسین کے تجربات کامیاب رہے تو امید ہے کہ سال کے آخر تک اس کی 10 کروڑ اور آئندہ سال ڈیڑھ ارب خوراکیں فراہم کی جاسکیں گی۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ویکسین معجزوں کے مانند ہیں اور آبادی کو خطرناک بیماریوں سے بچانے کا بہترین ذریعہ ہیں۔
ڈاکٹر پال گریفن وبائی امراض کے ماہر اور آسٹریلیا میں ویکسین کے تجربات میں شریک ہیں۔ انھیں توقع ہے کہ دوا کامیابی سے وائرس پر حملہ کرے گی اور چند ماہ میں دستیاب ہوجائے گی۔
انھوں نے کہا کہ ہم نے اینٹی باڈیز کی مختلف اقسام اور ان کی تعداد پر غور کیا، مریضوں کے بلڈ ٹیسٹ کرکے ان کا جائزہ لیا اور لیبارٹری میں بہت سے تجربات کیے تاکہ ظاہر ہوسکے کہ ویکسین وائرس کو بے اثر کردیتی ہے۔ جو کمپنی ویکسین بنارہی ہے وہ اس کی وسیع پیمانے پر پیداوار کی تیاری شروع کرچکی ہے۔ اگر ہم نے اسے محفوظ اور موثر ثابت کردیا تو ممکنہ طور پر اس سال کے آخر تک بڑی تعداد میں خوراکیں دستیاب ہوں گی۔
آسٹریلوی حکام کا کہنا ہے کہ ان کے ملک میں تجربہ کرونا وائرس کی ویکسین تیار کرنے کی عالمی کوششوں میں پیشرفت ہے۔ تجربے میں شریک چند افراد کو بے ضرر دوا دی جائے گی جبکہ باقی کو نوواویکس کی ویکسین لگائی جائے گی۔
تجربات کے ابتدائی نتائج جولائی میں آجائیں گے جبکہ سائنس دانوں کا خیال ہے کہ ٹھوس شواہد سال کے آخر تک ملیں گے۔ دوسرے مرحلے کے تجربات کئی ملکوں میں ہوں گے جن میں ہزاروں رضاکار حصہ لیں گے۔ رضاکاروں کی اس وقت بھی ضرورت ہے اور مایرین نے زور دیا ہے کہ انسانوں پر تجربات میں نقصان پہنچانے کے قابل وائرس استعمال نہیں کیا جارہا۔
نوواویکس کو تحقیق کے لیے ناروے میں قائم ادارے ایپی ڈیمک پریپئیرڈنیس انوویشنز کی جانب سے لگ بھگ 39 کروڑ ڈالر دیے گئے ہیں۔ دنیا بھر میں سو سے زیادہ ممکنہ ویکسینز پر کام جاری ہے، جبکہ تقریباً ایک درجن کے انسانوں پر تجربات جاری ہیں۔
نوول کرونا وائرس ابھی تک لاعلاج ہے اور اس دنیا بھر میں ساڑھے تین لاکھ اموات ہوچکی ہیں۔ اس پر تحقیق کرنے والوں کو اربوں ڈالر دیے جارہے ہیں، تاکہ محفوظ اور قابل بھروسہ علاج تلاش کرسکیں۔