اس برس کا گوگل سائنس میلہ جیتنے والی امریکی طالبہ اولیویا ہلائیزی ایک عام 17 سالہ لڑکی نہیں ہے، اس نے ایبولا وائرس کی تشخیص کے لیے ایک انتہائی سستا اور پورٹیبل ٹیسٹ ڈیزائن تیار کیا ہے۔
جس سے ممکنہ طور پرخطرناک اور مہلک انفیکشن ایبولا کے پھیلاؤ کو محدود کرنےمیں مدد مل سکتی ہے۔
امریکہ میں گرین وچ کنیکٹیکٹ ہائی اسکول کی جونئیر طالبہ اولیویا ایک ایسا ٹیسٹ ڈیزائن ایجاد کرنے میں کامیاب ہو گئی ہے،جس کی بدولت تھوک میں ایبولا وائرس کا پتہ لگانے میں صرف 30 منٹ لگیں گے ۔
گوگل سائنس میلہ 2015 کی انعامی تقریب کیلی فورنیا میں گوگل کے صدر دفتر ماونٹین ویو میں منعقد ہوئی، جہاں 22 فائنلسٹ کی موجودگی میں اولیویا نے پہلےانعام وصول کیا۔
گوگل کے پانچویں سالانہ میلے میں اولیویا نے ناصرف 'گوگل گرینڈ پرائز' وصول کیا بلکہ اعلی تعلیم کے لیے گوگل کی طرف سے 50 ہزار ڈالر کا انعامی وظیفہ بھی حاصل کیا ہے۔
گوگل کا سائنسی میلہ اصل میں نئی نسل کے سائنس دان، موجد اور ماہرین کے درمیان ایک مقابلہ ہے، جس میں 13 سے 18برس کے نوجوانوں کو حصہ لینے کے لیے مدعو کیا جاتا ہے۔
ہر سال دنیا بھر سے ہزاروں طلبہ مقابلے میں اپنے سائنسی منصوبے بھیجتے ہیں،جن میں سے بعض کو فائنل مقابلے کے لیے منتخب کیا جاتا ہے۔
اولیویا نے اپنے منصوبے کی وضاحت میں لکھا کہ ایبولا کی موجودہ تشخیص کے عمل کے ساتھ بہت سے مسئلے ہیں۔ اس طریقے سے ایبولا وائرس کا پتہ لگانے کے لیے لگ بھگ 12 گھنٹے درکار ہوتے اس کے لیے پیچیدہ اوزار اور کمیکلز کے لیے ریفریجریٹر کی ضرورت ہوتی ہے اس کے علاوہ لاگت بھی کم ازکم ایک ہزار ڈالر آتی ہے۔
اس کے برعکس نیا طریقہ کار سستا، تیز رفتار اور دیرپا ہے،جس کی مدد سے تقریبا 25 ڈالر میں صرف تیس منٹ کے اندر اندر ٹیسٹ کے درست نتائج حاصل کئے جاسکتے ہیں ۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس ٹیسٹ کےذریعے مریض میں علامات یا انفیکشن ظاہر ہونے سے پہلے ہی ایبولا کا پتا لگایا جاسکتا ہے اور کسی مریض میں انفیکشن پھیلنے یا متعدی بننے سے قبل ہی اس کا تیز رفتار علاج کرنا ممکن ہو سکتا ہے ۔
اولیویا کے ڈیزائن کردہ ٹیسٹ کا طریقہ کار نہایت آسان ہے، جس کے لیے ریفریجریٹر کی ضرورت نہیں یہ ڈیوائس رنگ کی تبدیلی کی بنیاد پر وائرس میں سے ایک پروٹین کا پتہ لگاتی ہے ۔
اولیویا نے اگرچہ حقیقی مریضوں یا وائرس میں پر اس ایجاد کی جانچ نہیں کی ہے لیکن اس نے ظاہر کیا کہ ایک سلک پر مشتمل خصوصی جانچ کے کارڈ پر مریضوں کے تھوک کےنمونے ڈالنے سے ،کارڈ کے اجزاء یا ری ایجنٹس، ردعمل کا اظہار کرتا ہے ،اگر ایبولا اینٹی جینز موجود ہے ۔
اولیویا نے سی این بی سی نیوز سے ایک انٹرویو میں کہا کہ انھوں نے پچھلے سال ایبولا کےباعث ہونے والی ہلاکتوں کے بارے میں مضامین پڑھنے کے بعد اس منصوبے پر کام کرنے کا فیصلہ کیا تھا ۔
انھوں نے کہا کہ وہ متعدی امراض کے پچیدہ مسئلے کا آسان حل چاہتی تھی، اسی لیے انھوں نے اس وبائی مرض کی روک تھام کے طریقوں کی تلاش پر کام کیا ۔
اولیویا نے کہا کہ ہمیں عالمی صحت، ماحول اور دنیا کے لیےخطرہ بننے والے چیلنجوں کا جواب تلاش کرنے کے لیے مل کر کام کرنا ہوگا ۔
اولیویا ہلائیزئی اسکالر شپ سے اپنی یونیورسٹی کی تعلیم مکمل کرنا چاہتی ہے اور اس کے بعد عالمی صحت کی تنظیموں جیسے ڈاکٹرز ودآوٹ بارڈرز میں کام کرنے کا اراداہ رکھتی ہے۔
اولیویا نے کہا کہ میں ابھی سے اپنے مستقبل کے بارے میں بہت پرجوش ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہےکہ ایبولا وائرس کی جلد تشخیص اس مہلک مرض کے پھیلاؤ روکنے میں معاون ثابت ہو سکتی ہے,جبکہ نوے فیصد سے زیادہ متاثرین ابتدائی تشخیص اور طبی مداخلت سے قبل ہی مر جاتے ہیں۔
عالمی ادارہ صحت کے مطابق سب سے پہلے یہ بیماری وسطی اور مغربی افریقہ کے دور دراز دیہاتوں میں آئی۔ یہ وائرس جانوروں سے انسانوں میں منتقل ہوتا ہے ۔1974 میں یہ مرض سب سے پہلے کانگو اور سوڈان میں رپورٹ ہوا تھا.
اس بیماری کا نام دریائے ایبولا سے موسوم ہے ۔
2014میں افریقی ملک لائبریا میں اس کی وباء پھوٹی تھی جہاں اس مرض کی ویکسین کی عدم موجودگی نے ہزاروں لوگوں کی جانیں لی لی تھیں ۔