ایک محتاط اندازے کے مطابق دنیا میں اس وقت چھ ہزار سے زائد زبانیں بولی جاتی ہیں جن میں سے لگ بھگ تین ہزاراس صدی کے اختتام تک صفحہ ہستی سے مٹ جائیں گی۔
ماہرینِ لسانیات کے مطابق صرف براعظم ہائے شمالی و جنوبی امریکہ کی 800 میں سے 500 قدیم بولیاں اور زبانیں یا تو فنا ہوچکی ہیں یا معدومیت کے خطرے سے دوچار ہیں۔
ان زبانوں میں سے اکثر کے بولنے اور لکھنے والے محض چند ہی لوگ دنیا میں باقی بچے ہیں ۔ اگر ان زبانوں کو محفوظ رکھنے اور نوجوان نسل تک منتقل کرنے کی محکمہ جاتی اور منظم کوششیں نہ کی گئیں تو یہ جلد ہی ماضی کا قصہ بن جائیں گی۔
ماہرینِ لسانیات کے مطابق معدوم ہوجانے والی یا معدومیت کے دہانے پر کھڑی زبانوں کی بھی دو اقسام ہیں۔ پہلی قسم کی مثال لاطینی زبان ہے جسے اس لیے مردہ قرار دیا جاتا ہے کیوں کہ اس کا ارتقائی عمل رک چکا ہے اور تعلیمی اداروں اور گرجا گھروں سے باہر اس زبان کا کوئی وجود نہیں۔
اب بھی لاکھوں لوگ لاطینی زبان بالواسطہ طور پر پڑھتے ہیں کیوں کہ طب اور قانون کی کئی اصطلاحیں لاطینی ہیں جب کہ ہسپانوی، پرتگالی، فرانسیسی، رومانوی اور انگریزی جیسی معروف اور مستعمل زبانوں نے بھی لاطینی سے کئی الفاظ مستعار لے رکھے ہیں۔ لیکن اس زبان میں عام بول چال اب ترک ہوچکی ہے۔
معدوم زبانوں کی دوسری قسم میں وہ زبانیں آتی ہیں جو صفحہ ہستی سے مکمل طور پر مٹ چکی ہیں اورجن کا بولنے والا اب دنیا میں ایک بھی شخص موجود نہیں رہا۔
براعظم امریکہ کی سینکڑوں قدیم زبانیں اسی حال سے دوچار ہوچکی ہیں کہ اب ان کے بولنے اور لکھنے والا کوئی شخص دستیاب نہیں۔ جو قبائل یہ زبانیں بولتے تھے، وہ یا تو خود امتدادِ زمانہ کی نذر ہوکر اپنا وجود کھو بیٹھے یا انہوں نے خطے کے بدلتے ہوئے سیاسی حالات کے پیشِ نظر غالب زبانوں انگریزی اور فرانسیسی کو اختیار کرلیا۔
رفتہ رفتہ ان قبائل کے بزرگوں نے بھی نئی نسل کے ساتھ اپنی قدیم زبان میں گفتگو ترک کردی اور یوں ان کے ساتھ ساتھ یہ زبانیں بھی اپنا وجود کھو بیٹھیں۔
لیکن ایسی کئی معدوم زبانوں کے احیاء کی سنجیدہ کوششیں مسلسل جاری ہیں اور ان کوششوں کے پیچھے تحقیقی مزاج کی تسکین ہی نہیں بلکہ عظمتِ رفتہ کی بحالی کا جذبہ بھی کارفرما رہا ہے۔
ان کوششوں کی کامیابی کی ایک جتیر جاگتی مثال عبرانی زبان کی صورت میں موجود ہے جو ایک زمانے میں صرف یہودیوں کی مذہبی رسومات اور قدیمی مخطوطوں کے مطالعے کےلیے ہی مخصوص ہو کر رہ گئی تھی۔
لیکن اب عبرانی اسرائیل کی قومی زبان کی حیثیت سے زندگی کے ہر شعبے میں کارفرما ہے اور روزانہ لاکھوں لوگ اس زبان کے سہارے اپنے روزمرہ کے معمولات نبٹاتے ہیں۔
لیکن کسی قدیم اور معدوم زبان کا احیاء اتنا آسان نہیں، خاص طور پر اس صورت میں جب اس زبان میں کوئی مخطوطہ، قصے کہانیوں کی کوئی کتاب یا کوئی اور تحریری مسودہ موجود نہ ہو اور اس زبان کے قواعد (گرائمر) کا سراغ لگانا ناممکن ہو۔ یہ ایک خاصا دقت طلب کام ہے جو اپنے کرنے والوں سے بعض اوقات ان کی پوری زندگی طلب کرلیتا ہے۔
ماہرینِ لسانیات کے مطابق صرف براعظم ہائے شمالی و جنوبی امریکہ کی 800 میں سے 500 قدیم بولیاں اور زبانیں یا تو فنا ہوچکی ہیں یا معدومیت کے خطرے سے دوچار ہیں۔
ان زبانوں میں سے اکثر کے بولنے اور لکھنے والے محض چند ہی لوگ دنیا میں باقی بچے ہیں ۔ اگر ان زبانوں کو محفوظ رکھنے اور نوجوان نسل تک منتقل کرنے کی محکمہ جاتی اور منظم کوششیں نہ کی گئیں تو یہ جلد ہی ماضی کا قصہ بن جائیں گی۔
ماہرینِ لسانیات کے مطابق معدوم ہوجانے والی یا معدومیت کے دہانے پر کھڑی زبانوں کی بھی دو اقسام ہیں۔ پہلی قسم کی مثال لاطینی زبان ہے جسے اس لیے مردہ قرار دیا جاتا ہے کیوں کہ اس کا ارتقائی عمل رک چکا ہے اور تعلیمی اداروں اور گرجا گھروں سے باہر اس زبان کا کوئی وجود نہیں۔
اب بھی لاکھوں لوگ لاطینی زبان بالواسطہ طور پر پڑھتے ہیں کیوں کہ طب اور قانون کی کئی اصطلاحیں لاطینی ہیں جب کہ ہسپانوی، پرتگالی، فرانسیسی، رومانوی اور انگریزی جیسی معروف اور مستعمل زبانوں نے بھی لاطینی سے کئی الفاظ مستعار لے رکھے ہیں۔ لیکن اس زبان میں عام بول چال اب ترک ہوچکی ہے۔
معدوم زبانوں کی دوسری قسم میں وہ زبانیں آتی ہیں جو صفحہ ہستی سے مکمل طور پر مٹ چکی ہیں اورجن کا بولنے والا اب دنیا میں ایک بھی شخص موجود نہیں رہا۔
براعظم امریکہ کی سینکڑوں قدیم زبانیں اسی حال سے دوچار ہوچکی ہیں کہ اب ان کے بولنے اور لکھنے والا کوئی شخص دستیاب نہیں۔ جو قبائل یہ زبانیں بولتے تھے، وہ یا تو خود امتدادِ زمانہ کی نذر ہوکر اپنا وجود کھو بیٹھے یا انہوں نے خطے کے بدلتے ہوئے سیاسی حالات کے پیشِ نظر غالب زبانوں انگریزی اور فرانسیسی کو اختیار کرلیا۔
رفتہ رفتہ ان قبائل کے بزرگوں نے بھی نئی نسل کے ساتھ اپنی قدیم زبان میں گفتگو ترک کردی اور یوں ان کے ساتھ ساتھ یہ زبانیں بھی اپنا وجود کھو بیٹھیں۔
لیکن ایسی کئی معدوم زبانوں کے احیاء کی سنجیدہ کوششیں مسلسل جاری ہیں اور ان کوششوں کے پیچھے تحقیقی مزاج کی تسکین ہی نہیں بلکہ عظمتِ رفتہ کی بحالی کا جذبہ بھی کارفرما رہا ہے۔
ان کوششوں کی کامیابی کی ایک جتیر جاگتی مثال عبرانی زبان کی صورت میں موجود ہے جو ایک زمانے میں صرف یہودیوں کی مذہبی رسومات اور قدیمی مخطوطوں کے مطالعے کےلیے ہی مخصوص ہو کر رہ گئی تھی۔
لیکن اب عبرانی اسرائیل کی قومی زبان کی حیثیت سے زندگی کے ہر شعبے میں کارفرما ہے اور روزانہ لاکھوں لوگ اس زبان کے سہارے اپنے روزمرہ کے معمولات نبٹاتے ہیں۔
لیکن کسی قدیم اور معدوم زبان کا احیاء اتنا آسان نہیں، خاص طور پر اس صورت میں جب اس زبان میں کوئی مخطوطہ، قصے کہانیوں کی کوئی کتاب یا کوئی اور تحریری مسودہ موجود نہ ہو اور اس زبان کے قواعد (گرائمر) کا سراغ لگانا ناممکن ہو۔ یہ ایک خاصا دقت طلب کام ہے جو اپنے کرنے والوں سے بعض اوقات ان کی پوری زندگی طلب کرلیتا ہے۔