کراچی —
دنیا بھر میں موجود ہندو برادری نے پیر کو رنگوں کا تہوار ”ہولی“ روایتی جوش و جذبے اورخوشی کے ساتھ منایا۔
پاکستان میں بھی ہندومت کے ماننے والوں کی بڑی تعداد موجود ہے لہذا یہاں بھی ہولی روایتی طور طریقوں کے ساتھ منائی گئی تاہم اس بار لاڑکانہ کے ناخوش گوار واقعے اور تھر میں قحط کے سبب اس کے رنگ کچھ پھیکے رہے۔
بلوچستان، خیبر پختونخواہ، پنجاب اور سندھ۔ چاروں صوبوں میں اقلیتی برادری رہائش پذیر ہے لیکن سندھ وہ صوبہ ہے جہاں سب سے زیادہ ہندو کمیونٹی آباد ہے۔ سنہ 1998 کی مردم شماری کے مطابق پاکستان میں ہندووٴں کی آبادی 27 لاکھ ہے لیکن اب اس میں خاصا اضافہ ہوچکا ہے۔
ملک کا سب سے بڑ ا شہر کراچی بھی ہندووٴں کا مسکن ہے۔ شہر کے مختلف مندروں اور دیگر مقامات پر اتوار کی رات روایتی انداز میں ہولی جلائی گئی جبکہ پیر کو ایک دوسرے کو رنگوں میں نہلایا گیا، کچے رنگ پھینکے گئے۔ گلال لگائے گئے اور ان سب کے ساتھ ساتھ خصوصی پوجا کا بھی اہتمام ہوا جبکہ پوجا کے بعد پرشاد بھی تقسیم کیا گیا۔
کچھ مقامات پر اتوار کی رات کو بھی ہولی جلانے کے بعد ایک دوسرے پر رنگ پھینکے گئے۔ کراچی کے رہائشی شیام کمار نے 'وائس آف امریکہ' کو ہولی سے متعلق بتایا، ”ہولی امن و شانتی کا پیغام ہے، اسی لئے دوسرے مذاہب کے ماننے والے بھی اس میں خصوصی طور پر شرکت کرتے اور اظہار یکجہتی کرتے ہیں۔
ہندو ویلفیئر کونسل پاکستان کے مطابق سندھ کے بعد پنجاب میں سب سے زیادہ ہندو آباد ہیں۔ یہاں ان کی آبادی 4 سے 5 لاکھ ہے۔ لاہور، بہاول نگر، بہاول پور، رحیم یار خان، ملتان، ہارون آباد، اوج شریف، صادق آباد، ڈونگا بونگا، لیاقت پور، سیالکوٹ، خان پور، راولپنڈی، قصور، گوجرانوالہ، ننکانہ صاحب، سرگودھا اور دیگر شہروں میں ہندو خاصی بڑی تعداد میں موجود ہیں۔
ہولی کے دن ہندو میتھالوجی پر مشتمل کتھا سنی اور سنائی جاتی ہے۔ بھجن گائے جاتے ہیں، دیوی دیوتاوٴں کی آرتی اتاری جاتی ہے۔ نوجوان اور بچے بھنگڑے اور لڈیاں ڈالتے ہیں۔ بچوں میں تحفے بانٹے جاتے ہیں۔
اندرون سندھ اور پنجاب میں ہولی کے موقع پر جشن کا سا سماں ہوتا ہے۔ بیشتر جگہوں پر ایکو ساؤنڈ پر اونچی آواز میں موسیقی بجائی جاتی ہے جبکہ موسیقی کی دھن پر رقص بھی کیا جاتا ہے۔ خواتین ہولی جلنے سے پہلے اس کے گرد چکر لگاتی اور منتیں مانتی ہیں۔ ایک دوسرے پر رنگ ڈالنا عام بات ہے۔ بچّے، بڑے، خواتین، مرد ہر کوئی ایک دوسرے کو دھنک رنگوں سے نہلا دینا چاہتا ہے۔
کم و بیش ہر محلے میں ،گلیوں میں ، چھتوں اور میدانوں میں رنگ بھری پچکاریوں سے ایک دوسرے پر رنگ اور پانی پھینکا جاتا ہے ۔ چھتوں پر موجود نوجوان لڑکیاں بھی ایک دوسرے کے چہروں کو رنگ لگاتی ہیں۔
گولارچی ضلع بدین سندھ سے تعلق رکھنے والے ”پپو“ نے وائس آف امریکہ کوبتایا کہ سندھ میں ہولی کے موقع پر مٹکی پھوڑنے کا رواج بھی بہت قدیم ہے۔ مختلف لڑکے اور لڑکیاں ٹولیوں کی شکل میں بہت اونچائی پر بندھی مٹکی کو پھوڑتے ہیں۔ مٹکی پھوڑنے کیلئے لڑکے ایک دوسرے کے کندھوں پر چڑھ کر مٹکی تک پہنچتے ہیں۔ درمیان میں کئی بار انسانی جانوں سے بنا ’زینہ‘ توٹ بھی جاتا ہے لیکن جتنی بار یہ ٹوٹتا ہے اتنی بار ہی دوبارہ بنایا جاتا ہے ۔۔۔اور اس وقت تک یہی سلسلہ جاری رہتا ہے جب تک وہ مٹکی نہ پھوٹ جائے۔
بدین کے دیہی علاقوں میں بھی ہندوؤں کی ایک بڑی تعداد آباد ہے اور ہولی کا یہ تہوار نہ صرف بدین بلکہ ضلع کے تمام شہروں اور دیہات میں بھی بھرپور طریقے سے منایا جاجاتا ہے ۔ہندو عقیدے کے مطابق ہولی کے ساتھ رنگ تمام بیماریوں سے شفا کا کام انجام دیتے ہیں۔
سندھ کے صحرائی علاقے تھر میں ہندووٴں کی اکثریت آباد ہے ۔ عمر کوٹ، تھرپارکر اور ضلع سانگھڑ میں یہ تہوار بہت ”حرش و الاس ‘( جوش و جذبے) کے ساتھ منایا جاتا ہے۔ لیکن اس سال خشک سالی نے ہولی کے رنگ پھیکے کردیئے۔ جن گھر وں میں قحط نے بچوں کو آلیا وہاں آج سارا دن خاموشی ، ویرانی اور افسردگی کا ماحول رہا۔
پاکستان ہندو فاوٴنڈیشن کے سابق پریذیڈنٹ ڈی ایم مہاراج کے مطابق ہولی کا تہوار پھاگن کے مہینے میں منایا جاتا ہے۔ پھاگن ہندو برادری کے کلینڈر میں ایک مہینے کا نام ہے۔ ہولی کے روز ایک ظالم بادشاہ کی بھی موت ہوئی تھی جس سے نجات کی خوشی میں ہولی منائی جاتی ہے۔
پاکستان میں بھی ہندومت کے ماننے والوں کی بڑی تعداد موجود ہے لہذا یہاں بھی ہولی روایتی طور طریقوں کے ساتھ منائی گئی تاہم اس بار لاڑکانہ کے ناخوش گوار واقعے اور تھر میں قحط کے سبب اس کے رنگ کچھ پھیکے رہے۔
بلوچستان، خیبر پختونخواہ، پنجاب اور سندھ۔ چاروں صوبوں میں اقلیتی برادری رہائش پذیر ہے لیکن سندھ وہ صوبہ ہے جہاں سب سے زیادہ ہندو کمیونٹی آباد ہے۔ سنہ 1998 کی مردم شماری کے مطابق پاکستان میں ہندووٴں کی آبادی 27 لاکھ ہے لیکن اب اس میں خاصا اضافہ ہوچکا ہے۔
ملک کا سب سے بڑ ا شہر کراچی بھی ہندووٴں کا مسکن ہے۔ شہر کے مختلف مندروں اور دیگر مقامات پر اتوار کی رات روایتی انداز میں ہولی جلائی گئی جبکہ پیر کو ایک دوسرے کو رنگوں میں نہلایا گیا، کچے رنگ پھینکے گئے۔ گلال لگائے گئے اور ان سب کے ساتھ ساتھ خصوصی پوجا کا بھی اہتمام ہوا جبکہ پوجا کے بعد پرشاد بھی تقسیم کیا گیا۔
کچھ مقامات پر اتوار کی رات کو بھی ہولی جلانے کے بعد ایک دوسرے پر رنگ پھینکے گئے۔ کراچی کے رہائشی شیام کمار نے 'وائس آف امریکہ' کو ہولی سے متعلق بتایا، ”ہولی امن و شانتی کا پیغام ہے، اسی لئے دوسرے مذاہب کے ماننے والے بھی اس میں خصوصی طور پر شرکت کرتے اور اظہار یکجہتی کرتے ہیں۔
ہندو ویلفیئر کونسل پاکستان کے مطابق سندھ کے بعد پنجاب میں سب سے زیادہ ہندو آباد ہیں۔ یہاں ان کی آبادی 4 سے 5 لاکھ ہے۔ لاہور، بہاول نگر، بہاول پور، رحیم یار خان، ملتان، ہارون آباد، اوج شریف، صادق آباد، ڈونگا بونگا، لیاقت پور، سیالکوٹ، خان پور، راولپنڈی، قصور، گوجرانوالہ، ننکانہ صاحب، سرگودھا اور دیگر شہروں میں ہندو خاصی بڑی تعداد میں موجود ہیں۔
ہولی کے دن ہندو میتھالوجی پر مشتمل کتھا سنی اور سنائی جاتی ہے۔ بھجن گائے جاتے ہیں، دیوی دیوتاوٴں کی آرتی اتاری جاتی ہے۔ نوجوان اور بچے بھنگڑے اور لڈیاں ڈالتے ہیں۔ بچوں میں تحفے بانٹے جاتے ہیں۔
اندرون سندھ اور پنجاب میں ہولی کے موقع پر جشن کا سا سماں ہوتا ہے۔ بیشتر جگہوں پر ایکو ساؤنڈ پر اونچی آواز میں موسیقی بجائی جاتی ہے جبکہ موسیقی کی دھن پر رقص بھی کیا جاتا ہے۔ خواتین ہولی جلنے سے پہلے اس کے گرد چکر لگاتی اور منتیں مانتی ہیں۔ ایک دوسرے پر رنگ ڈالنا عام بات ہے۔ بچّے، بڑے، خواتین، مرد ہر کوئی ایک دوسرے کو دھنک رنگوں سے نہلا دینا چاہتا ہے۔
کم و بیش ہر محلے میں ،گلیوں میں ، چھتوں اور میدانوں میں رنگ بھری پچکاریوں سے ایک دوسرے پر رنگ اور پانی پھینکا جاتا ہے ۔ چھتوں پر موجود نوجوان لڑکیاں بھی ایک دوسرے کے چہروں کو رنگ لگاتی ہیں۔
گولارچی ضلع بدین سندھ سے تعلق رکھنے والے ”پپو“ نے وائس آف امریکہ کوبتایا کہ سندھ میں ہولی کے موقع پر مٹکی پھوڑنے کا رواج بھی بہت قدیم ہے۔ مختلف لڑکے اور لڑکیاں ٹولیوں کی شکل میں بہت اونچائی پر بندھی مٹکی کو پھوڑتے ہیں۔ مٹکی پھوڑنے کیلئے لڑکے ایک دوسرے کے کندھوں پر چڑھ کر مٹکی تک پہنچتے ہیں۔ درمیان میں کئی بار انسانی جانوں سے بنا ’زینہ‘ توٹ بھی جاتا ہے لیکن جتنی بار یہ ٹوٹتا ہے اتنی بار ہی دوبارہ بنایا جاتا ہے ۔۔۔اور اس وقت تک یہی سلسلہ جاری رہتا ہے جب تک وہ مٹکی نہ پھوٹ جائے۔
بدین کے دیہی علاقوں میں بھی ہندوؤں کی ایک بڑی تعداد آباد ہے اور ہولی کا یہ تہوار نہ صرف بدین بلکہ ضلع کے تمام شہروں اور دیہات میں بھی بھرپور طریقے سے منایا جاجاتا ہے ۔ہندو عقیدے کے مطابق ہولی کے ساتھ رنگ تمام بیماریوں سے شفا کا کام انجام دیتے ہیں۔
سندھ کے صحرائی علاقے تھر میں ہندووٴں کی اکثریت آباد ہے ۔ عمر کوٹ، تھرپارکر اور ضلع سانگھڑ میں یہ تہوار بہت ”حرش و الاس ‘( جوش و جذبے) کے ساتھ منایا جاتا ہے۔ لیکن اس سال خشک سالی نے ہولی کے رنگ پھیکے کردیئے۔ جن گھر وں میں قحط نے بچوں کو آلیا وہاں آج سارا دن خاموشی ، ویرانی اور افسردگی کا ماحول رہا۔
پاکستان ہندو فاوٴنڈیشن کے سابق پریذیڈنٹ ڈی ایم مہاراج کے مطابق ہولی کا تہوار پھاگن کے مہینے میں منایا جاتا ہے۔ پھاگن ہندو برادری کے کلینڈر میں ایک مہینے کا نام ہے۔ ہولی کے روز ایک ظالم بادشاہ کی بھی موت ہوئی تھی جس سے نجات کی خوشی میں ہولی منائی جاتی ہے۔