امریکہ کی ریاست ٹیکساس کے شہر ہیوسٹن میں اس وقت خوب گہما گہمی کا سماں ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے آپ لالی ووڈ کی سیر کو آئے ہوں۔۔ شاپنگ مال، ریسٹورنٹس اور راستے میں چلتے آپ کی ملاقات کسی نا کسی فنکار سے ہو ہی جاتی ہے۔
ہفتے کی رات کو ہونے والے ایوارڈز کی تیاریاں جاری ہیں۔ ہوٹل کے اندر ہی ریہرسلز ہو رہی ہیں اور کھانے کا بندوبست بھی۔
’وائس آف امریکہ‘ سے بات کرتے ہوئے، عدنان صدیقی نے اپنے حالیہ پراجیکٹس پر روشنی ڈالی، اور ان کے کردار پر ناظرین کے منفی کمنٹس کو کردار کی کامیابی قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے جب بھی کسی پراجیکٹ پر کام کیا ’’اسے چیلنج سمجھ کر کیا‘‘۔
سارہ خان، نوجوان نسل کی پسندیدہ اداکاراؤں میں سے ایک ہیں۔ ’بیلاپور کی ڈائن‘ میں ان کے کردار کو نامزدگی ملی ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ اس ڈرامے میں ان کا کردار ’’روٹین سے ہٹ کر تھا‘‘۔
تاہم، اب بھی وہ ایسے کرداروں کی خواہش رکھتی ہیں جو عورتوں کی زندگی میں کسی مثبت تبدیلی کا پیش خیمہ بن سکیں۔
زاہد احمد نے اپنے کیرئر کا آغاز ڈرامے، ’محرم‘ سے کیا۔ اِن دنوں ان کا ڈرامہ ’عشق زہے نصیب‘ آن ائیر ہے، جس میں ان کے کردار کو بہت پذیرائی مل رہی ہے۔
یہ ایک ایسا کردار ہے جو دن میں ایک کامیاب بزنس مین ہوتا ہے۔ لیکن، رات ہوتے ہی وہ ایک عورت کا روپ دھار لیتا ہے۔ زاہد نے اسےاب تک کا سب سے چیلنجنگ کردار قرار دیا۔
ان کے ساتھ، اس ڈرامے میں یمنی زیدی بھی ہیں، جن کو ان ایوارڈز میں دو نامزدگیاں ملی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ جب بھی آپ کے ڈرامے یا آپ کے کردار کو نامزدگی ملتی ہے، ’’دل گبھرایا رہتا ہے‘‘۔
تاہم، وائس آف امریکہ کی اردو سروس سے بات کرتے ہوئے یمنی کا کہنا تھا کہ امریکہ میں پرستاروں سے ملنا اور ان کے دل میں اپنے ملک کے فنکاروں کے لیے پیار محسوس کر کے انہیں بہت اچھا لگا۔