ریڈیو پاکستان لاھور کی عمارت کی تہہ خانے میں قائم کلاسیکل میوزیکل ریسرچ سیل میں ایسی نادر موسیقی کی ریکارڈنگز موجود ہیں کہ برصغیر کی موسیقی سے جن لوگوں کو دلچسپی ہے وہ یہ دیکھ کر حیرت زدہ ہوجاتے ہیں کہ اتنی پرانی ریکارڈنگ اب تک کیسے محفوظ رہ سکی۔ مثال کے طور پر اُستاد بڑے غلام علی خان کے چچا اُستاد کالے خان کے گائے ہوئے راگ اس سیل کی لائبریری میں موجود ہیں۔
کلاسیکی موسیقی سے شغف رکھنے والے جانتے ہیں کہ زہرہ بائی آگرے والی کیسی پائے کی گائیکہ تھیں۔ زہرہ بائی کی گائی ہوئی کلاسیکی موسیقی بھی یہاں موجود ہے۔ کلاسیکی موسیقی میں بعض فنکار سپاٹ تان لگانے میں شہرت رکھتے تھے۔ رجب علی خان دیواس والے کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ سپاٹ تان لگانے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے۔ اُن کی ریکارڈنگ بھی اس میوزک ریسرچ سیل میں مل سکتی ہے۔
اس سیل کی نگران نسرین انجم بھٹی نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ موسیقی کے علاوہ اُن کے اس ریسرچ سیل میں اُردو، ہندی ، فارسی اور انگریزی زبانوں میں موسیقی سے متلعق سات سو پینتالیس نادر کتابیں موجود ہیں اور ساتھ ہی ساتھ تین سو چودہ ایسے مضامین بھی ہیں جو موسیقی کے مختلف ماہرین کے تحریر کردہ ہیں۔ اُنہوں نے بتایا کہ اس ریسرچ سیل میں موسیقی سے متعلق اہم شخصیات کی نادر تصاویر بھی ہیں جو کم ہی کہیں اور دستیاب ہیں۔
اُنہوں نے کہا کہ آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کے درباری گائیک اور اُن کے اُستاد خاں صاحب قطب بخش خان استاد تان رس خان کے نام سے معروف ہیں۔ اُن کی تصویر بھی اس ریسرچ سیل میں موجود ہے۔
اُستاد غلام حیدر خان عرصہ دراز سے کلاسیکی موسیقی کے اس سیل سے منسلک ہیں۔ اُنہوں نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ معروف گانے والی بائی گوہر جان کی تصویر بھی اس ریسرچ سیل میں موجود ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ غالباً اکبر الہ آبادی کا یہ شعر اسی گوہر جان کے بارے میں ہے۔
خوش نصیب آج بھلا کون ہے گوہر کے سوا
سب کچھ اللہ نے دے رکھا ہے شوہر کے سوا
اُستاد غلام حیدر خان نے کہا کہ گوہر جان کی یہ تصویر کسی آرٹسٹ کی ہاتھ سے بنائی ہوئی تصویر ہے جو میوزک ریسرچ سیل کو بڑی تگ ودو کے بعد حاصل ہوئی تھی۔
اُستاد غلام حیدر نے اس میوزک ریسرچ سیل کی تاریخ بیان کرتے ہوئے کہا کہ ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں فیض احمد فیض مرحوم کو جب وزارتِ تعلیم میں ثقافتی امور کا مشیر مقرر کیا گیا تھا تو اس وقت فیض احمد فیض نے اس میوزک ریسرچ سیل کی بنیاد ڈالی تھی۔ اس کا دفتر لاھور میں مین گلبرگ میں واقع تھا تاہم جب ضیاء الحق کا مارشل لاء لگا تو اس میوزک ریسرچ سیل کا مستبقل خطرے میں پڑ گیا۔ اُس دور کے ریڈیو پاکستان لاھور کے اسٹیشن ڈائریکٹر سلیم گیلانی، جن کو موسیقی کے شعبے سے گہری دلچسپی تھی ، کوشش کرکے اس ریسرچ سیل کو ریڈیو لاھور کی عمارت میں لے آئے۔
اس سیل کی نگران نسرین انجم بھٹی کا کہنا تھا کہ لاھور ریڈیو میں اس نادر سرمایے کو جگہ مل گئی اور یہ بچ گیا ورگرنہ آج اس کا نام ونشان نہ ہوتا۔ اُنہوں نے بتایا کہ کلاسیکی موسیقی کے مسلمان گھرانوں کے بارے میں اس ریسرچ سیل کے کارکنوں کی کوششوں سے بہت سی تفصیلی معلومات جمع کر لی گئی ہیں جو کہ اس حوالے سے ریفرنس میٹریل کا درجہ رکھتی ہیں۔ اُنہوں نے کہا کہ گوالیار ، آگرہ ، د ہلی ، پٹیالہ ، قصور ، تلونڈی ، شام چوراسی ، کیرانہ گھرانوں اور ربابی خاندان کے علاوہ پکھاوج اور طبلے کے پنجاب گھرانے کے بارے میں بھی بہت جامع اور مفید معلومات اس سیل میں موجود ہیں جو موسیقی پر ریسرچ میں کارآمد ثابت ہوسکتی ہیں۔
واضح رہے کہ کلاسیکی موسیقی کے اس ریسرچ سیل نے موسیقی سے متعلق تین کتابیں بھی شائع کی ہیں۔ ایک کتاب کا عنوان ہے "امیر خسرو اور موسیقی" ۔ دوسری کتاب موسیقی کے اُن فنکاروں کے بارے میں ہے جن کو پاکستان میں قومی ایوارڈز مل چکے ہیں جبکہ تیسری کتاب آل انڈیا ریڈیو د ہلی کے ڈائریکٹر میوزک، ڈاکٹر کے۔ سی۔ برسپتی کی ہندی کتاب کا اُردو ترجمہ ہے جس کا عنوان ہے "مسلمان اور برصغیر کی موسیقی" ۔
ان کتابوں کے علاوہ اس سیل میں کلاسیکی موسیقی کے چار سو سے زیادہ مسلمان فنکاروں کے بارے میں معلومات پر مبنی ایک کیٹلاگ بھی مرتب کیا جارہا ہے جو نسرین انجم بھٹی کے بقول جلد منظرِ عام پر آجائے گا۔
نسرین انجم بھٹی نے کہا کہ میوزک ریسرچ سیل میں موجود تمام موسیقی کو ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے ذریعے محفوظ کرنے کا سلسلہ بھی شروع ہوچکا ہے اور یہ کام اُن کے بقول جلد مکمل ہوجائے گا۔ ایک سوال کے جواب میں نسرین انجم بھٹی نے بتایا کہ اس ریسرچ سیل میں نامور موسیقاروں کے ساز بھی موجود ہوتے تھے مگر چونکہ یہ ریسرچ سیل تہہ خانے میں واقع ہے اور یہاں نمی کی وجہ سے ان سازوں کو نقصان پہنچنے کا خطرہ تھا چنانچہ ماہرین کےمشورے سے ان سازوں کو ریڈیو پاکستان کی اسلام آباد میں واقع سینٹرل لائبریری میں منتقل کردیا گیا ہے تاکہ ان کی مناسب حفاظت ہوسکے۔