پاکستان کےنجی چینلز پر بھارتی ٹی وی پروگرامز کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ ’سرشیتر‘،’ کون بنے گا کروڑ پتی‘، ’دس کا دم‘اور اس جیسے درجنوں بھارتی سیریلز ، سیریز اور ٹی وی شوزپاکستانی ٹی وی اسکرین کی بہاربنے ہوئے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ بھارتی فیچر فلموں کی بھی نجی چینلزپر بھرمار ہے۔
کراچی یونیورسٹی کےایک طالب علم انور علی کے بقول، ’ ان پروگرامز کی بہتات دیکھ کر ہو سکتا ہے ٹی وی دیکھتے دیکھتے آپ کو دن یا رات کے کسی پہر ایک لمحے کے لئے یہ فیصلہ کرنا بھی مشکل نظر آئے کہ آپ ’اپنا ٹی وی‘ دیکھ رہے ہیں یا ’ان کا ٹی وی‘۔
’وائس آف امریکہ‘ کے نمائندے کی جانب سے کئے گئے ایک سروے نتائج کے مطابق کراچی کے متعدد علاقوں میں پچھلے دو، ڈھائی ماہ سے انڈین ٹی چینلزکیبل آپریٹرز نے بند کئے ہوئے ہیں ۔ نمائندے کے استفسار پر کیبل آپریٹرز کی اکثریت کا کہنا تھا کہ پیمرا نے ملک میں’فحاشی‘ کو روکنے کے لئے انڈین چینلز پرپابندی لگائی ہوئی ہے۔‘
عجیب اتفاق یہ ہےکہ ایک جانب انڈین چینلز کو فحاشی قرار دے کر بند کیا ہوا ہے تو دوسری جانب انڈین ٹی وی چینلز کے پروگرامز ملک کے تمام چھوٹے بڑے چینلز پر بلا روک ٹوک دکھائے جارہے ہیں۔گلشن اقبال کراچی کی ایک رہائشی تبسم کا کہنا ہے’عجیب منطق ہے ، انڈین چینلز سے دیکھیں تویہ پروگرامز’ فحش ‘ اورنجی ٹی چینلز سے دیکھیں تو یہی پروگرام جائز۔یہ منطق میری تو سمجھ سے بالاتر ہے‘۔
ایک نجی ٹی وی کے مارکیٹنگ ڈپارٹمنٹ سے وابستہ اعلیٰ عہدیدار نے نام ظاہر نہ کئے جانے کی شرط پر وی او اے کو بتایا، ’دراصل پاکستانی ٹی وی چینلز کے ریونیو میں اضافے کی غرض سے ایسا کیا جاتا ہے ۔ کیوں کہ پاکستانی کونٹینٹ کے مقابلے میں بھارتی کونٹینٹ کی آج بھی بہت زیادہ ڈیمانڈ ہے ۔ ان پروگرامز کو دیکھنے والوں کی تعداد لاکھوں اورکروڑوں میں ہے ، اس کے لئے اشتہارات بھی بہت زیادہ ملتے ہیں ظاہر ہے جس کونٹینٹ کو دیکھنے والے زیادہ ہوں گے اور ان سے آمدنی بھی زیادہ ہوگی ، وہی تو دکھایا جائے گا‘۔
لیکن، ایک اور نجی ٹی وی کے مارکیٹنگ منیجر اس رائے سے اتفاق نہیں کرتے ۔ ان کا کہنا ہے ، ’پاکستانی ڈرامے پہلے کے مقابلے میں بہت زیادہ دیکھے جاتے ہیں۔پہلے دور میں صرف پی ٹی وی کا دور تھا ، اسی کی اجارہ داری تھی بعد میں ایس ٹی این اور این ٹی ایم آگئے جوبہت کامیاب رہے ، حالانکہ ان پر انڈین کونٹینٹ کا نام و نشان بھی نہیں تھا۔ اس وقت بھی درجن بھر سے زائد پاکستانی چینلز ایسے ہیں جن پر انڈین پروگرامز کے مقابلے میں پاکستانی اسٹف دیکھنے والوں کی تعداد زیادہ ہے۔‘
ادھر، ایک اور نجی ٹی وی چینل ا ے آر وائی ڈیجیٹل کے عہدیدار سجاد علی کا کہنا ہے، ’ نجی ٹی وی چینلز کوبدلتے دور کے تقاضے پورے کرنے کے لئے ہر نجی ٹی چینل کو ہر روزاپنی بقا کی جنگ لڑنا پڑتی ہے۔اسے ہر لمحے چیلنج کا سامنا کرناپڑتا ہے ، ایسی صورتحال میں انڈین یا پاکستانی کونٹینٹ کی بحث میں پڑے بغیر یہ نکتہ سامنے رکھنا ہوتا ہے کہ ناظرکیا دیکھنا چاہتا ہے ، اسے کیا پسند ہے۔ لہذا، جو چیز زیادہ دیکھی جاتی ہے اسی کو پروموٹ کیا جاتا ہے اور اسی کو اسکرین پر پیش کیا جاتاہے۔‘
کراچی یونیورسٹی کےایک طالب علم انور علی کے بقول، ’ ان پروگرامز کی بہتات دیکھ کر ہو سکتا ہے ٹی وی دیکھتے دیکھتے آپ کو دن یا رات کے کسی پہر ایک لمحے کے لئے یہ فیصلہ کرنا بھی مشکل نظر آئے کہ آپ ’اپنا ٹی وی‘ دیکھ رہے ہیں یا ’ان کا ٹی وی‘۔
’وائس آف امریکہ‘ کے نمائندے کی جانب سے کئے گئے ایک سروے نتائج کے مطابق کراچی کے متعدد علاقوں میں پچھلے دو، ڈھائی ماہ سے انڈین ٹی چینلزکیبل آپریٹرز نے بند کئے ہوئے ہیں ۔ نمائندے کے استفسار پر کیبل آپریٹرز کی اکثریت کا کہنا تھا کہ پیمرا نے ملک میں’فحاشی‘ کو روکنے کے لئے انڈین چینلز پرپابندی لگائی ہوئی ہے۔‘
عجیب اتفاق یہ ہےکہ ایک جانب انڈین چینلز کو فحاشی قرار دے کر بند کیا ہوا ہے تو دوسری جانب انڈین ٹی وی چینلز کے پروگرامز ملک کے تمام چھوٹے بڑے چینلز پر بلا روک ٹوک دکھائے جارہے ہیں۔گلشن اقبال کراچی کی ایک رہائشی تبسم کا کہنا ہے’عجیب منطق ہے ، انڈین چینلز سے دیکھیں تویہ پروگرامز’ فحش ‘ اورنجی ٹی چینلز سے دیکھیں تو یہی پروگرام جائز۔یہ منطق میری تو سمجھ سے بالاتر ہے‘۔
ایک نجی ٹی وی کے مارکیٹنگ ڈپارٹمنٹ سے وابستہ اعلیٰ عہدیدار نے نام ظاہر نہ کئے جانے کی شرط پر وی او اے کو بتایا، ’دراصل پاکستانی ٹی وی چینلز کے ریونیو میں اضافے کی غرض سے ایسا کیا جاتا ہے ۔ کیوں کہ پاکستانی کونٹینٹ کے مقابلے میں بھارتی کونٹینٹ کی آج بھی بہت زیادہ ڈیمانڈ ہے ۔ ان پروگرامز کو دیکھنے والوں کی تعداد لاکھوں اورکروڑوں میں ہے ، اس کے لئے اشتہارات بھی بہت زیادہ ملتے ہیں ظاہر ہے جس کونٹینٹ کو دیکھنے والے زیادہ ہوں گے اور ان سے آمدنی بھی زیادہ ہوگی ، وہی تو دکھایا جائے گا‘۔
لیکن، ایک اور نجی ٹی وی کے مارکیٹنگ منیجر اس رائے سے اتفاق نہیں کرتے ۔ ان کا کہنا ہے ، ’پاکستانی ڈرامے پہلے کے مقابلے میں بہت زیادہ دیکھے جاتے ہیں۔پہلے دور میں صرف پی ٹی وی کا دور تھا ، اسی کی اجارہ داری تھی بعد میں ایس ٹی این اور این ٹی ایم آگئے جوبہت کامیاب رہے ، حالانکہ ان پر انڈین کونٹینٹ کا نام و نشان بھی نہیں تھا۔ اس وقت بھی درجن بھر سے زائد پاکستانی چینلز ایسے ہیں جن پر انڈین پروگرامز کے مقابلے میں پاکستانی اسٹف دیکھنے والوں کی تعداد زیادہ ہے۔‘
ادھر، ایک اور نجی ٹی وی چینل ا ے آر وائی ڈیجیٹل کے عہدیدار سجاد علی کا کہنا ہے، ’ نجی ٹی وی چینلز کوبدلتے دور کے تقاضے پورے کرنے کے لئے ہر نجی ٹی چینل کو ہر روزاپنی بقا کی جنگ لڑنا پڑتی ہے۔اسے ہر لمحے چیلنج کا سامنا کرناپڑتا ہے ، ایسی صورتحال میں انڈین یا پاکستانی کونٹینٹ کی بحث میں پڑے بغیر یہ نکتہ سامنے رکھنا ہوتا ہے کہ ناظرکیا دیکھنا چاہتا ہے ، اسے کیا پسند ہے۔ لہذا، جو چیز زیادہ دیکھی جاتی ہے اسی کو پروموٹ کیا جاتا ہے اور اسی کو اسکرین پر پیش کیا جاتاہے۔‘