رسائی کے لنکس

متنازع شہریت قانون کے خلاف بھارتی پنجاب کی اسمبلی میں قرارداد منظور


فائل فوٹو
فائل فوٹو

بھارت کی ریاست پنجاب کی اسمبلی نے متنازع شہریت بل کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے اس کے خلاف قرارداد کثرت رائے سے منظور کی ہے۔

پنجاب میں انڈین نیشنل کانگریس برسر اقتدار ہے جس کے وزیر برہم مہندرا نے قرارداد ایوان میں پیش کی جسے منظور کر لیا گیا۔

قرارداد میں کہا گیا کہ شہریت بل کی منظوری سے ملک بھر میں بے چینی پائی جاتی ہے۔ عوام میں غم و غصہ ہے اور مظاہروں کا سلسلہ بھی جاری ہے۔

یہ بھی کہا گیا ہے کہ مظاہروں میں تمام مکاتب فکر کے افراد شامل ہیں۔ جو مرکزی حکومت کی اس قانون سازی سے نالاں ہیں۔

بھارتی ریاست کیرالہ کے بعد پنجاب بھارت کی دوسری ریاست ہے جہاں متنازع شہریت بل کے خلاف اسمبلی نے قرارداد منظور کی ہے۔ ریاست کیرالہ نے بل کے خلاف سپریم کورٹ آف انڈیا سے بھی رُجوع کر رکھا ہے۔

متن میں کہا گیا ہے کہ شہریت بل بھارت کی نظریاتی اساس 'سیکولر ازم' سے متصادم ہے۔ جس کے تحت بھارتی آئین تشکیل دیا گیا۔

قرارداد میں شہریت بل کو مذہب پر مبنی امتیازی سلوک اور بھارت کے بعض طبقوں کو ثقافتی اور لسانی طور پر تقسیم کرنے کے مترادف قرار دیا گیا ہے۔ اسے جمہوریت کے بنیادی تقاضوں کے منافی بھی کہا گیا ہے۔

ریاستی اسمبلی کی قرارداد میں وفاقی حکومت سے متنازع شہریت قانون واپس لینے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

بعض مسلم رہنماؤں نے اس بل کو مذہب کے نام پر بھارت کو تقسیم کرنے اور اسے ہندو ریاست بنانے کی سازش بھی قرار دیا ہے۔

بھارت کی چھ ریاستوں نے متنازع شہریت بل پر عمل درآمد سے انکار کر دیا تھا۔ ان ریاستوں میں پنجاب، مغربی بنگال، مدھیہ پردیش، کیرالہ اور چھتیس گڑھ کی حکومتیں شامل تھیں۔

شہریت قانون اور اس کی مخالفت

بھارت کی پارلیمان نے 12 دسمبر 2019 کو ایک بل منظور کیا تھا جس کے تحت پاکستان، افغانستان اور بنگلہ دیش سے 'مذہب کی بنیاد پر ستائے گئے' چھ مذاہب کے افراد کو بھارت کی شہریت دینے کی منظوری دی گئی تھی۔ اس فہرست میں مسلمانوں کو شامل نہیں کیا گیا تھا۔

اس بل کو بھارت کی حزب اختلاف کی جماعتیں بھارت کا سیکولر تشخص مسخ کرنے کے مترادف قرار دے رہی ہیں۔ حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی پر الزام عائد کیا جا رہا ہے کہ وہ مذہب کی بنیاد پر بھارت کی نظریاتی اساس کو متاثر کر رہی ہے۔

مذکورہ بل کے خلاف بھارتی دارالحکومت نئی دہلی سمیت اتر پردیش، آسام اور دیگر ریاستوں میں پرتشدد ہنگاموں کے نتیجے میں درجنوں افراد بھی ہلاک ہو چکے ہیں۔

XS
SM
MD
LG