اس وقت دنیا میں سات ارب سے زائد لوگ آباد ہیں، جو تقریبا 7000 قومی اور علاقائی زبانیں بولتے ہیں۔ لیکن، تحقیق کے مطابق، ان میں صرف 7 فیصد زبانیں انٹرنیٹ پر چھپے مواد میں نظر آتی ہیں۔
اگر اعداد و شمار کو دیکھا جائے تو انٹرنیٹ پر اس وقت 98 فیصد مواد محض ایک درجن زبانوں سے تعلق رکھتا ہے۔ اور اس میں بھی تقریباً ستر فیصد مواد ایک زبان یعنی انگریزی میں ہے۔
حالانکہ دیکھا جائے تو 2003 سے لے کر اب تک انٹرنیشنل ڈومین نیمز کے مطابق دنیا کی 152 مختلف زبانوں کو انٹرنیٹ کی رسائی دی گئی۔ ان میں چینی، جاپانی کوریائی اور عربی رسم الخط میں لکھے جانے والی زبانیں شامل ہیں۔
لیکن، دوسری طرف دیکھا جائے تو اقوام متحدہ کے مطابق، تیز رفتار اطلاعات کے اس دور میں اب بھی دنیا کی 45 فیصد آبادی کو انٹرنیٹ تک رسائی حاصل نہیں۔
انٹرنیٹ کے اس دور میں آخر زبانوں کی ڈیجیٹل موجودگی میں یہ تفاوت کیوں ہے؟ اس بات اور اس سے جڑے ہوئے مختلف پہلوؤں کو سمجھنے کے لیے وائس آف امریکہ نے ماہر لسانیات و ادبیات، ڈاکٹر معظم صدیقی سے بات کی۔
وہ کہتے ہیں کہ زبانوں کی ترقی اور ترویج کا ثقافت سے گہرا تعلق ہے۔ ایسے معاشرے جہاں پر جمہوریت اور آزادی رائے ہو وہاں لوگ اپنے خیالات کے اظہار کے لیے انٹرنیٹ جیسی سہولت کو استعمال بھی کرتے ہیں اور اس سے مستفید بھی ہوتے ہیں۔
اردو زبان کے حوالے سے بات کرتے ہوئے، ڈاکٹر معظم صدیقی نے کہا کہ اردو میں معیاری ادب لکھا گیا ہے۔ لیکن، اس وقت انٹرنیٹ کے حوالے سے منتقلی کا وقت ہے، جہاں لوگ اپنے خیالات کے اظہار کے لئے آسان طریقوں کی تلاش میں ہیں۔
انہوں نے کہا کہ آج کل دنیا کی بڑی ویب سائیٹس، جیسا کہ بی بی سی اور وائس آف امریک کی اردو ویب سائٹس اور پاکستان میں سینکڑوں صحافتی اور میڈیا کی ویب سائٹس اردو زبان کی انٹرنیٹ پر موجودگی کو بڑھانے میں ایک اہم کردار ادا کر رہی ہیں۔
ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ کیونکہ پاکستان اور بھارت میں بہت سے اردو بولنے والے لوگ کاروبار اور مختلف پیشوں میں انگریزی زبان کو استعمال کرتے ہیں، اس لیے اردو کا انٹرنیٹ پر استعمال کم ہے۔
واشنگٹن ایریا میں مقیم ڈاکٹر کمال ابدالی، جنہوں نے سائنسی مضامین اور تراجم پر کام کیا ہے، کہتے ہیں کہ اردو کی انٹرنیٹ پر بھرپور موجودگی کے حوالے سے تکنیکی پہلو بھی اہم ہے۔
انھوں نے کہا کہ اگر اردو رسم الخط نستعلیق کے بجائے نسخ میں ڈھال لیا جائے تو ایسا کرنے سے اردو کو انٹرنیٹ کے مختلف پلیٹ فارمز پر لکھنے اور پھیلانے میں بہت مدد ملے گی۔ اس سے اردو میں لکھی جانے والی کتابوں کو بھی انٹرنیٹ پر دستیاب کرنے میں آسانی ہوگی۔
دوسری جانب یہ بات بھی اہم ہے کہ ہمارے معاشرے میں لوگ کن علوم و فنون میں دلچسپی رکھتے ہیں، کن موضوعات پر بحث کرتے ہیں یا کن موضوعات پر تحریر کی صورت میں اپنی آرا کا اظہار کرتے ہیں۔
ڈاکٹر کمال ابدالی نے کہا کہ پاکستان میں آج کل موضوعات میں تنوع کی کمی ہے۔
اگر آپ کتابوں، رسائل یا صحافتی پلیٹ فارمز پر نظر ڈالیں تو آپ کو سیاست، تاریخ، مذہب اور ادب کے موضوعات پر بہت سا مواد ملے گا۔ اس کے مقابلے میں سائنسی اور تکنیکی مضامین پر لکھنے اور چھاپنے کا فقدان ہے۔
مثال کے طور پر، وہ کہتے ہیں کہ اگر ہم اپنی کار خراب ہونے کی صورت میں کسی بھی نقص کو دور کرنے کے لئے کچھ پڑھنا چاہیں، تو وہ اردو میں بہت کم دستیاب ہوگا، جبکہ انگریزی اور دوسری زبانوں میں ایسے موضوعات پر ڈھونڈنے سے کئی لنکس مل جاتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ان حقائق کے پیش نظر انٹرنیٹ پر اردو کے مواد کو بڑھانے کے لئے پہلے تو موضوعات میں تنوع ہونا چاہئے، اور پھر ان پر مختلف قسم کی تحریریں اور کتابیں لکھی جانی چاہئیں؛ پھر ان کو ایک سہل انداز میں انٹرنیٹ پر ڈالا جائے، تاکہ ان سے عام لوکوں سے لے کر محققین تک سبھی استفادہ کر سکیں۔
عالمگیریت کے اس دور میں جب مختلف ثقافتوں کا ملاپ بھی ہے اور مقابلہ بھی، اردو کو پہلے ہی سے بڑے پیمانے پر موجود زبانوں کے مقابلے میں زیادہ چیلنجوں کا سامنا ہوگا۔ ایسے میں معاشرے میں شرح خواندگی بڑھانے اور زبان کی ترقی و ترویج کے ساتھ ساتھ اردو کے انٹرنیٹ پر استعمال کو سہل بنانے کی شعوری کوششیں بہت اہمیت کی حامل ہوں گی۔