مغربی ملکوں کے شہریوں کے ذہنوں میں ایران کا خیال آتے ہی شاید اک ایسے ملک کا تصور آتا ہے جہاں سر پر عمامے رکھے مولوی اور برقع پوش خواتین "مرگ بر امریکہ" کے نعرے لگاتے مارچ کر رہے ہوں۔ مگر چلیئے تہران اور دیکھیئے کہ کس طرح ایرانی شہری امریکی پاپ آرٹسٹ اینڈی وارہول کے "سوپ کینز" پر مشتمل فن پاروں کو دیکھنے کے لیے جوق در جوق تہران کے جدید آرٹ میوزیم کا رخ کر رہے ہیں۔
ایران کے دارالحکومت تہران کے اس میوزیم میں اینڈی وارہول کے اٹھارہ فن پارے دائروں کی شکل میں بنے نمائش ہالوں میں سجے ہوئے ہیں۔ یہ فن پارے دور سے نظر آنے پر ہی اینڈی وارہول کلاسکس کے طور پر پہچانے جا سکتے ہیں۔ ان میں کیمبل سوپ کے ڈبوں کی پینٹنگس، چین کے کمیونسٹ راہنما ماؤزے تنگ اور ہالی ووڈ سٹار مارلن منرو کے سلک سکرین پورٹریٹس اور سابق امریکی خاتون اول جیکولن کینیڈی کا vintage print شامل ہیں۔
یہ نمائش جسے "اینڈی وارہول آرٹ، ایک جائزہ" کا نام دیا گیا ہے، اس سال جون کے مہینے میں شروع ہوئی اور 24 اکتوبر کو اختتام پذیر ہو جائے گی۔
ایران میں کرونا وائرس کے بڑھتے ہوئے کیسز کی وجہ سے اگست میں کچھ ہفتوں کے لئے میوزیم کے دروازے شائقین کے لئے بند کردیے گئے تھے۔ ایران میں کسی بھی دوسری مشرق وسطیٰ کی ریاست کے مقابلے میں کرونا وائرس سے سب سے زیادہ ہلاکتیں ہوئی ہیں۔
اینڈی وارہول کے فن پاروں پر مبنی نمائش کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ اسے لوگ دوسرے شہروں سے بھی دیکھنے آئے۔ آرٹ کے دلدادہ کئی ایسے بھی افراد ہیں جو ان ہفتوں میں کئی بار میوزیم کے چکر لگا چکے ہیں۔
خبر رساں ادارے اے پی سے بات کرتے ہوئے 46 سالہ ریٹائرڈ ٹیچر فاطمے رضائی نے بتایا کہ وہ ان فن پاروں کو دیکھنے کے لئے شیراز سے دوسری مرتبہ ہوائی جہاز کے زریعے تہران آئی ہیں۔
فاطمے کا پسندیدہ فن پارہ مارلین منرو کی پورٹریٹ ہے جو وارہول نے 1962 میں ان کی خودکشی کے فوراً بعد تخلیق کیا تھا
وارہول کے یہ فن پارے ایرانی حکومت کی ملکیت ان اربوں ڈالرز کے فن پاروں کا حصہ ہیں جنہیں تہران میوزیم کے خصوصی چیمبر میں محفوظ رکھا گیا ہے۔ یہ اور دیگر بہت سے فن پارے ایران کے سابق بادشاہ رضا شاہ پہلوی کے دور میں، جب ملک تیل کی دولت سے مالا مال تھا، خریدے گئے تھے۔ ان میں نامور آرٹسٹس پکاسو، جیکسن پولوکس اور مونے کے فن پارے بھی شامل ہیں۔
ایران کی سخت گیر مذہبی حکومت نے ابتدا میں ماڈرن آرٹ پر پابندی لگاتے ہوئے ان شاہکار فن پاروں کو منظرعام سے ہٹا دیا تھا۔
تاہم ثقافتی پابندیوں میں نرمی کے ساتھ گزشتہ دو دہائیوں میں مغربی آرٹ کے پندرہ سو نمونے پھر سے ڈسپلے پر رکھ دیے گئے۔
ثقافتی نرمیوں کے باوجود حساس تصور کی جانے والی وارہول کی تجرباتی فلمیں نمائش کا حصہ نہیں بن پائیں۔
سال 2005 میں بھی جب میوزیم میں بیسویں صدی کے تمام امریکی اور یورپین فن پاروں کی نمائش کی گئی تھی چند شاہکار تخلیقات کو، جن میں مصور رینوا کی بنائی گئی ایک برہنہ پینٹنگ بھی شامل تھی، ڈسپلے پر رکھنے سے گریز کیا گیا۔