ایک امریکی دفاعی اہل کار کا کہنا ہے کہ عراق اور شام میں داعش کے لڑاکوں کی تعداد میں کچھ کمی آئی ہے، جب کہ لیبیا میں دولت اسلامیہ کے شدت پسندوں کی تعداد بڑھی ہے۔
امریکی اندازوں کے مطابق، عراق اور شام میں داعش کے شدت پسند 19000 سے 25000 تک ہیں، جن کی اسی خطے مین تعداد 20000 سے 31500 کے گذشتہ اندازوں سے کچھ کم ہے۔
تاہم، اس تعداد سے معلوم ہوتا ہے کہ دولت اسلامیہ اپنی نفری بڑھانے میں کامیاب ہوگئی ہے، حالانکہ اُسے شدید دھچکا لگا ہے۔
دفاعی اہل کاروں نے بتایا ہے کہ فضائی حملوں کے نتیجے میں دہشت گرد گروہ کی طاقت اور متحرک ہونے کی استعداد میں کمی آئی ہے۔ بمباری کے نتیجے میں ہزاروں ہلاک ہوچکے ہیں، جب کہ زمینی کارروائی کے دوران لڑائی میں سینکڑوں لڑاکے موت کے گھاٹ اتار دیے گئے ہیں۔
ادھر وائٹ ہاؤس میں، پریس سکریٹری جوش ارنیسٹ نے کہا ہے کہ یہ حقیقت کہ عراق اور شام میں داعش کے لڑاکوں کی تعداد کم ہوئی ہے، اِس بات کی دلیل ہے کہ مخالفین کے حلقے اور امریکی قیادت والے اتحاد کی ’’جارحانہ کوششیں‘‘ کارگر ثابت ہوئی ہیں۔
لیبیا میں، ایک دفاعی اہل نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ داعش کے لڑاکوں کی تعداد بڑھ کر 5000 تک پہنچ گئی ہے، جیسا کہ ’وائس آف امریکہ‘ پہلے ہی رپورٹ کر چکا ہے۔ اس سے قبل، امریکی اندازوں کے مطابق، یہ تعداد 2000 سے 3000 بتائی گئی تھی۔
ارنیسٹ نے بتایا کہ امریکہ اس بات سے آگاہ ہے کہ دولت اسلامیہ لیبیا اور ساتھ ہی افغانستان میں کمی بیشی کا فائدہ اٹھانا چاہتی ہے۔
ایڈمرل مائیکل فرینکن امریکہ کی افریقی کمان کے فوجی آپریشنز کے معاون سربراہ ہیں۔ اُنھوں نے دسمبر میں ’وائس آف امریکہ‘ کو بتایا تھا کہ شام کا شہر رقہ لیبیا کے شہر، سرطے کے لیے ایک مرکز کی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔ رقہ کو خودساختہ خلافت کا صدر مقام کہا جاتا ہے۔