رسائی کے لنکس

’ریپبلیکن، ڈیموکریٹک پارٹیاں مسلمان مخالف جذبات کی مذمت کریں‘


ڈاکٹر مزمل صدیقی
ڈاکٹر مزمل صدیقی

’’بحیثیتِ امریکی، صدارتی انتخابی مہم کے دوران مسلمان مخالف تاثر اور الفاظ کے استعمال پر ہمیں سخت تشویش ہے۔ ایسے رویے ملک کی مسلمان برادری اور دیگر اقلیتوں کے لیے تکلیف کا باعث ہیں‘‘

مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے رہنماؤں نے جمعرات کو ایک اخباری کانفرنس میں امریکی ریپبلیکن اور ڈیموکریٹک پارٹیوں پر زور دیا ہے کہ اپنی جماعتوں کے پلیٹ فارم سے مسلمانوں کے خلاف منافرت کے جذبات کو مسترد کیا جائے۔

’اسلامک سوسائٹی آف نارتھ امریکہ (اسنا)‘ کی جانب سے نیشنل پریس کلب، واشنگٹن میں منعقدہ ایک اخباری کانفرنس میں مذہبی رہنماؤں نے دونوں جماعتوں کو باضابطہ ایک مراسلہ روانہ کیا جس میں اُن سے تقاضا کیا گیا کہ وہ مسلمان مخالف جذبات پر مبنی تمام امتیاز کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں، یہ کہتے ہوئے کہ صدارتی نامزدگی کے لیے ہونے والے کنوینشن کے دوران، اِس ضمن میں، ’’دوٹوک‘‘ انداز اختیار کیا جائے۔

بین المذاہب اتحاد کے دو روزہ اجتماع کا عنوان ’دوش بدوش چلنا‘ تھا، جس میں 32 مختلف مذہبی گروپ شریک تھے، جو نفرت کے مخالف ہیں۔

اسنا کے صدر، اظہر عزیز نے کہا کہ ’’امریکی کی حیثیت سے صدارتی انتخابی مہم کے دوران مسلمان مخالف تاثر اور الفاظ کے استعمال پر ہمیں سخت تشویش ہے۔ ایسے رویے ملک کی مسلمان برادری اور دیگر اقلیتوں کے لیے تکلیف کا باعث ہیں‘‘۔

انتخابی مہم کے دوران مسلمانوں کے خلاف کافی متنازع بیانات سامنے آئے ہیں۔ ریپبلیکن پارٹی کے سرکردہ صدارتی امیدوار، ڈونالڈ ٹرمپ نے زور دے کر کہا ہے کہ امریکہ میں مسلمانوں کا داخلہ بند ہونا چاہیئے۔ ٹرمپ نے یہ بھی کہا ہے کہ وہ کچھ امریکی مسجدوں کو بند کرنے پر غور کریں گے۔

واشنگٹن کے سابق آرچ بشپ، کارڈنل تھیوڈور میکرک نے کہا کہ ’’اِس قسم کی گفتگو نہ جائے۔ یہ امریکی اقدار نہیں،۔۔۔یہ انسانیت نہیں۔ ایک ہی خاندان کے طور پر ہمیں یہ بات ہرگز قابل قبول نہیں‘‘۔

میکرک نے مزید کہا کہ امریکی مسلمانوں پر حملہ ’احمقانہ حرکت ہے‘ اور یہ ’’انتہائی بدترین انداز کی سیاست ہوگی‘‘۔

دیگر رہنماؤں نے بھی انتخابی مہم کے دوران مسلمان مخالف انداز کو ذاتی طور پر غلط قرار دیا۔

فاطمہ سلمان، جنھوں نے اپنے آپ کو مشی گن (جو امریکہ کی شمال وسطی ریاست ہے) کی ایک قابل فخر مسلمان قرار دیتے ہوئے کہا کہ اُنھیں ہمیشہ اس بات سے تسلی ہوتی ہے کہ اُن کی ریاست میں ’’یگانگت کا ماحول ہے‘‘ اور وہ ’’ساتھ ساتھ کھڑی ہیں‘‘۔

فاطمہ ڈیٹرائٹ کے مضافات سے تعلق رکھنے والی ایک سماجی کارکن ہیں، جو غریب ترین مضافات میں مقامی مکینوں میں قیادت کی استعداد بڑھانے کا کام کرتی ہیں؛ چونکہ، بقول اُن کے، ’’مجھے إحساس ہے کہ تبدیلی پیدا کرنے میں افراد کا ہی ہاتھ ہوتا ہے‘‘۔

اُنھوں نے کہا کہ حالیہ دِنوں کے دوران سٹی کونسل نے جو اجلاس نعقد کیا اور جس میں اُنھوں نے بھی شرکت کی تھی، وہ امن کا ماحول پیدا کرنے کے لیے معاون ثابت ہوا۔

بقول اُن کے، ’’میں اُس روز بھول بھلیوں میں تھی۔ اُس روز 125 افراد شہر میں تارکینِ وطن کے داخلے کے مخالف تھے۔ وہ مجھ سے سرد مہری سےملے، اُن کی آنکھوں میں میرے اور مسلمان برادری کے لیے نفرت اور غصہ غالب تھا‘‘۔

اُنھوں نے کہا کہ لوگوں نے مائکروفون چھینا، اور اُسی انداز کے نفرت آمیز الفاظ استعمال کیے جیسا کہ صدارتی انتخابی مہم کے دوران ابلاغ کے قومی دھارے میں شائع ہوتے رہے ہیں۔ قصبے کے مکینوں نے ووٹ دیا کہ شہر کو خوش آمدید کہنے والا شہر قرار دیا جائے۔ فاطمہ سلمان بے چینی میں اجلاس سے چلی گئیں۔

فاطمہ کے بقول، ’’دو پولیس اہل کاروں نے مجھے بتایا کہ آج مجھے کار تک جانے کے لیے محافظوں کی ضرورت ہے‘‘۔


لیکن، اُنھوں نے کہا کہ ’’ایک امریکی مسلمان کی حیثیت سے، میں مسلمانوں کو نشانہ بنانے والی نفرت کے خلاف کھڑی ہوں گی۔ نفرت جس میں سیاہ فاموں کو ہدف بنایا جائے، چاہے یہ میکسیکو والوں یا یہودیوں یا خواتین کے خلاف ہو۔ بالآخر، محبت ہی ہے جس کی فتح ہوتی ہے‘‘۔

مذہبی رہنماؤں نے دہشت گردی کے خلاف اکٹھے کھڑے ہونے کے عزم کا بھی اظہار کیا۔

اظہر عزیر نے کہا کے ’’دنیا بھر کے دہشت گرد وحشی درندے ہیں‘‘، جن کے لیے، اُن کا کہنا تھا کہ، ’’اسنا ہر قسم کی پُرتشدد انتہا پسندی اور دہشت گردی کی مذمت کرتی ہے‘‘۔

بقول اُن کے، ’’دنیا بھر کے مسلمان دہشت گردوں کو تسلیم نہیں کرتے؛ نہ ہی اُن کے نظریات کو مانتے ہیں، چونکہ یہ ٹولہ اُن کے مذہب کی ہرگز نمائندگی نہیں کرتا‘‘۔

اسنا نے اِس بات کا اعلان کیا ہے کہ باقی امریکیوں کی طرح امریکہ کے مسلمان بھی ’’دہشت گردی، انتہا پسندی اور عدم برداشت کے مخالف ہیں، اور پُرامن شہری کی حیثیت سے ملک کی خدمت میں غیر متزلزل یقین رکھتے ہیں‘‘۔
اسنا کے صدر نے کہا کہ ’’امریکی مسلمانوں نے ہمیشہ کھل کر دہشت گردی اور انتہا پسندی کی مذمت کی ہے، اور وہ سب کے ساتھ مل کر چلنے کے نہ صرف خواہاں ہیں، بلکہ کمر بستہ ہیں‘‘۔
تاہم، اُنھوں نے کہا کہ ملک میں جاری صدارتی مہم کے دوران نامزدگی کے خواہش مند چند امیدواروں نے مسلمانوں کے خلاف ’’نامناسب بیانات دیے ہیں، جو کسی طور پر قابل قبول نہیں ہیں‘‘۔
اِس موقعے پر اسنا نے سنہ 2014 میں منظور کیے گئے فتویٰ کا اعادہ کیا، جس میں دہشت گردی کی مذمت کی گئی اور داعش جیسی شدت پسند تنظیموں کے خلاف ’’سخت کارروائی‘‘ کا مطالبہ دہرایا۔
جمعرات ہی کے دِن، اسنا ے ایک اعلیٰ سطحی وفد نے وائٹ ہاؤس میں امریکی صدر براک اوباما سے ملاقات کی۔

اخباری کانفرنس سے خطاب کے دوران، ’آدمز سینٹر‘ کے انتظامی امور کے سربراہ، امام محمد ماجد نے کہا کہ ’’امریکی اقدار انتہاپسندی اور منافقت کی نفی کرتے ہیں، اور کوئی ذی شعور شخص عدم برداشت کے جذبات کا کبھی ساتھ نہیں دے سکتا‘‘۔

ادھر، نارتھ امریکہ میں مسلمانوں کی ایک اور تنظیم، ’اسلامک سرکل آف نارتھ امریکہ‘ کے صدر، نعیم بیگ نے بھی اسنا کی جانب سے بین المذاہب کانفرنس میں جاری کردہ اعلامیے کی تائید کی ہے۔ ’وائس آف امریکہ‘ سے گفتگو کرتے ہوئے، اُنھوں نے بتایا کہ، ’’ان کی تنظیم پہلے ہی تمام بڑی مسلم تنظمیوں پر مشتمل یو ایس کونسل آف مسلم آرگنائزیشن کے پلیٹ فارم سے امریکہ میں منافقت کی سیاست اور اسلامو فوبیا کے خلاف کام کر رہی ہے‘‘۔

اِس سلسلے میں، نعیم بیگ نے بتایا کہ 18 اپریل کو ’کیپٹل ڈے‘ بھی منایا جارہا ہے، جس کے تحت، امریکہ بھر سے 300 سے زائد سرگرم نمائندے اکٹھے ہوں گے اور اراکین سینیٹ و کانگریس سے مل کر اسلامو فوبیا اور امریکہ میں منافقانہ سیاسی جذبات کے خلاف تحریری یاداشت نامہ پیش کریں گے؛ جبکہ کونسل پہلے ہی ملک میں ’ون امریکہ‘ مہم بھی چلا رہی ہے، جِس کے بھی یہی مقاصد ہیں‘‘۔

XS
SM
MD
LG