’اسرائیل جانا ہے، پاگل ہو گئی ہو؟‘، ’کیا اپنی جان عزیز نہیں؟‘، ’پتہ بھی ہے وہاں کے حالات کا؟‘۔ اسرائیل جانے کے ارادے پردوست احباب کی طرف سے یہ رد ِعمل غیر متوقع نہ تھا۔ وہ حیران تھے کہ سیاحت کے شوق اور صحافیانہ حس کی تسکین کے لیے مجھے اسرائیل جانے کا خیال ہی کیوں سوجھا؟ ۔ ایک دوست کا خیال تھا کہ جس ملک میں مرد بھی اکیلے جانے سے کتراتے ہوں وہاں مجھ جیسی خاتون کا تن تنہا نکل جانا قطعا مناسب نہ تھا۔ مگر میں ارادہ باندھ چکی تھی جسے توڑنا میرے اختیار میں نہ تھا۔ اور ہوتا بھی کیسے؟
کچھ ارادے اور خواہشات ورثے میں ملتے ہیں۔ قبلہِ اول پر حاضری اور یروشلم کی گلیوں میں بھٹک جانے کی خواہش نے پہلی مرتبہ کب سر ابھارا، یاد نہیں۔ یاد ہے تو اتنا کہ والد صاحب (مرحوم) جو احباب میں تاریخ ِانسانی پر سند مانے جاتے تھے اور جن کے پیروں کے بھنور انہیں ہر کچھ عرصے بعد ایک نئی دنیا میں لے جاتے تھے، قبلہ ِاول سے الگ ہی طور کی عقیدت و محبت رکھتے تھے۔ اور بس اسی محبت کا تھوڑا سا حصہ انکی اولاد میں بھی منتقل ہو گیا تھا۔
تل ابیب سے یروشلم۔ قسط نمبر 2
لیکن سبز پاسپورٹ پر درج عبارت ’یہ پاسپورٹ سوائے اسرائیل کے تمام دنیا کے لیے کارآمد ہے‘ کی وجہ سے وہاں جانے کا خواب ادھورا تھا۔
قدرت کے لطف و کرم کے سلسلے بھی عجب ہیں۔ وہ سرزمین جہاں میرے جانے کی تمام راہیں بظاہر مسدود تھیں، چند ماہ پہلے امریکی پاسپورٹ کے لیے حلف اٹھاتے ہوئے جیسے کھلتی چلی گئیں۔ اور مجھے نیلے پاسپورٹ کی صورت میں مسجد ِاقصیٰ جانے کا پروانہ مل گیا۔
مگر کیا ایک ایسے ملک کا سفر اختیار کرنا آسان تھا جس سے آج تک تعارف شورش، ہنگاموں اور خون خرابے کی روداد سناتی منفی خبروں پر مشتمل ہو۔ جہاں کے زمین اور آسمان یکسر اجنبی ہوں۔ جہاں کی روایات، لوگ اور ثقافت سے شناسائی کا کوئی دروازہ کوئی در آپ پر کبھی وا ہی نہ ہوا ہو کہ وہ جگہ ’سرزمین ِممنوعہ‘ ٹھہری۔
مجھ جیسے بیشتر پاکستانیوں کے لیے ’سرزمین ِممنوعہ‘ سے تعارف شہاب نامے کا وہ چھوٹا سا حصہ تھا جہاں قدرت اللہ شہاب اسرائیل میں گزارے اپنے قلیل وقت کو بیان کرتے ہیں۔ انہیں یہ موقعہ اس وقت ملا جب یونیسکو کی جانب سے کچھ دن کے لیے وہ اس سرزمین پر ایک غیر ملکی پاسپورٹ کے طفیل داخل ہوسکے۔
بھلا ہو سوشل میڈیا ویب سائیٹس کا، ایک دوست کے توسط سے جنوبی افریقہ میں مقیم ڈاکٹر کاشف مصطفیٰ سے رابطہ ہوا جو نیلسن منڈیلا کے معالج بھی رہ چکے ہیں اور ایک برس پہلے اسرائیل گئے تھے۔ ڈاکٹر کاشف نے اسرائیل کے حوالے سے سوالات و خدشات کا تفصیلی جواب دینے کے ساتھ ساتھ یروشلم کے ایک مسلمان ڈرائیورعبدالقادر کا پتہ بھی بتایا۔ طے پایا کہ عبدالقادر اسرائیل کے چار روزہ قیام میں تل ابیب سے وصول کرنے اور واپس ہوائی اڈے چھوڑنے تک بطور ڈرائیور اور ٹور گائیڈ ساتھ موجود رہے گا۔
30نومبر 2016 کی رات گیارہ بجے واشنگٹن کے ڈیلس ائیر پورٹ سے براستہ استنبول اسرائیل کے لیے روانہ ہوئے۔۔۔ استنبول ائیر پورٹ پر اترنے کے تھوڑی ہی دیر بعد میں اس قطار کا حصہ بن گئی جہاں تل ابیب کی پرواز کے لیے مسافروں کی سیکورٹی چیکنگ کی جا رہی تھی۔۔۔ پہلے جوتے اور پھر کوٹ اتروایا گیا، پھر بیگ کی جامع تلاشی کے بعد سیکورٹی پر مامور خاتون نے بورڈنگ پاس اور پاسپورٹ بادل نخواستہ ہمارے حوالے کر ہی دیا۔۔۔ ہم آج تک بلاوجہ ہی امریکی ائیرپورٹس پر سیکورٹی کے نظام کو کوستے رہے تھے۔۔۔ اسرائیلی سیکیورٹی کے کڑے حصار سے نکل کر اور پرواز میں نشست پر براجمان ہونے کے بعد اوسان قدرے بحال ہوئے۔۔۔ ارد گرد نگاہ دوڑائی تو سبھی چہرے ناشناسا تھے۔۔۔ حسب ِتوقع جہاز میں یہودیکی تعداد زیادہ تھی جبکہ تنزانیہ سے تعلق رکھنے والا عیسائیوں کا ایک بڑا گروپ بھی بیٹھا تھا جو جہاز کے ٹیک آف کرنے سے پہلے ہی اپنی مقدس کتاب کی تلاوت میں مشغول ہو چکا تھا۔۔۔ کیلی فورنیا سے تعلق رکھنے والے چند لمبے تڑنگے امریکی نوجوان سب ہی کی نظروں کا مرکز بنے ہوئے تھے جو تل ابیب میں باسکٹ بال کے کسی مقابلے میں حصہ لینے جا رہے تھے۔
ساتھ والی نشست پر بیٹھا نوجوان عبرانی زبان میں کتاب پڑھ رہا تھا۔ کھانے کے دوران گفتگو کا موقع ملا تو پتہ چلا کہ ایلون رموس امریکی شہری ہے مگر والدین تل ابیب میں رہائش پذیر ہیں۔ ایلون امریکی ریاست ایریزونا کی ایک یونیورسٹی سے فزکس میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کر رہا تھا اور ان دنوں اپنے مقالے کی تحقیق میں مصروف تھا۔ یہ جان کر کہ میں پاکستانی ہوں، ایلون رموس کے ابروؤں میں ہلکی سی جنبش ہوئی اور چہرے پر ایسا تاثر ابھرا جسے کوئی نام نہ دے سکی۔ پھر دوستانہ مسکراہٹ سے کہنے لگا، ’میری امریکہ میں بہت سے پاکستانیوں سے شناسائی ہے مگر کسی پاکستانی کو اور وہ بھی ایک پاکستانی خاتون کو تن تنہا اسرائیل کا سفر کرتے ہوئے پہلی مرتبہ دیکھ رہا ہوں‘۔ میں کیا بتاتی کہ پاکستانی خاتون بہت بہادری سے تل ابیب کی اس پرواز تک تو پہنچ گئی تھی مگر دل جیسے یقین اور بے یقینی کے درمیان ڈول رہا تھا۔ میں نے گھبراہٹ کو خوداعتمادی میں چھپا کر محض اتنا ہی کہنے پر اکتفا کیا، ’سچ پوچھئیے تو ابھی تک میں خود بھی یقین نہیں کر پائی‘۔ ’بہت خوب، تو کیا میں اس سفر کو آپ کی مہم جوانہ طبعیت کا خاصا سمجھوں یا پھر اسرائیل جانے کے پیچھے کوئی اور مقصد بھی کارفرما ہے؟‘ میں ایلون رموس کے لہجے میں چھپی شرارت کو سمجھ گئی اور سچ بولنے میں ہی عافیت جانی، ’مہم جوئی سے انکار نہیں مگر مجھے بچپن سے ہی مسجد ِاقصیٰ اور یروشلم دیکھنے کی تمنا ہے، یہ سفر اسی خواہش کی تکمیل کے لیے اختیار کیا ہے‘۔ ایلون رموس مسکرایا، ’مجھے امید ہے کہ یروشلم آپ کو پسند آئے گا۔ آپ مسجد ِاقصیٰ کے علاوہ دیگر مذاہب سے متعلق مذہبی جگہوں پر بھی جائیے گا۔ اسلام کی پیروکار ہونے کے ناطے یروشلم کی تمام مذہبی جگہیں آپ کے لیے مقدس ہیں‘۔ ’یقینا، ارادہ بھی یہی ہے، امید ہے یروشلم شہر میں گھومنے پھرنے کے دوران سیکورٹی کے معاملات اتنے دشوار نہیں ہوں گے جسکی ہلکی سی جھلک ابھی ائیر پورٹ پر دیکھی ہے؟‘ میں ائیر پورٹ پر سخت چیکنگ کے جھٹکے سے ابھی تک نہ سنبھلی تھی۔ ’نہیں، یروشلم میں آپ کو سیکورٹی کے اتنے تردد سے نہیں گزرنا پڑے گا۔ ایک دفعہ آپ شہر میں داخل ہوں گی تو چیزیں نسبتا آسان ہوں گی'۔
ہماری گفتگو کا تسلسل اس وقت ٹوٹا جب جہاز میں یہودیوں کی ایک بڑی تعداد تیزی سے اٹھ کھڑی ہوئی۔ معلوم ہوا کہ جہاز بادلوں کو چیرتا ہوا اب اسرئیل کی حدود میں داخل ہو رہا تھا۔ ایلون سمیت دیگر یہودی اپنی اپنی نشستوں سے تعظیماً اٹھ کھڑے ہوئے اور پھر ہلتے ہوئے تورات پڑھنے لگے اور عبادت میں مصروف ہو گئے اور میں جہاز کی کھڑکی باہر تل ابیب شہر کا نظارہ دیکھنے لگی۔ شام چھ بج کر پچاس منٹ پر طیارے کے پہیئے تل ابیب کے بن گیرین انٹرنیشنل ائیر پورٹ کے رن وے سے ٹکرائے تو دھڑکنیں تیز ہوگئیں۔۔۔۔
جاری ہے۔۔۔