کراچی میں چھٹے سالانہ لٹریچر فیسٹول کا آغاز ہوگیا ہے۔ تین روز جاری رہنے والے اس ادبی میلے میں ادب اور فنونِ لطیفہ کی مختلف اصناف پر 80 سے زائد نشستیں ہوں گی۔
'کراچی لٹریچر فیسٹول' کی شریک بانی اور 'آکسفورڈ یونیورسٹی پریس' کی سربراہ امینہ سید نے 'وائس آف امریکہ' کو بتایا کہ تین روزہ میلے میں 37 غیر ملکیوں سمیت لگ بھگ 250 مصنفین، ادیب، شاعر اور فن کار شریک ہورہے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ اس سال بھی ادبی میلے میں امریکہ اور برطانیہ سمیت نو مختلف ملکوں کے مصنفین اور ادیبوں کی نمائندگی موجود ہے جب کہ اندرونِ ملک سے شریک ہونے والے مہمان مقررین کی تعداد 200 سے زائد ہے۔
امینہ سید نے بتایا کہ ادبی میلے کے دوران 26 نئی کتابوں کی رونمائی ہوگی جب کہ مختلف موضوعات پر مباحثوں، مکالموں، مصنفین کے ساتھ ملاقاتوں اور نشستوں کے علاوہ مشاعرہ، داستان گوئی کی محفل، اور پرفارمنگ آرٹس کے سیشن بھی میلے کا حصہ ہیں۔
انہوں نے کہا کہ گزشتہ سال منعقد ہونے والے ادبی میلے میں 70 ہزار شہریوں نے شرکت کی تھی اور اس سال منتظمین کو امید ہے کہ میلے میں ایک لاکھ افراد شریک ہوں گے۔
'کراچی لٹریچر فیسٹول' کی افتتاحی تقریب جمعے کو کراچی کے ایک مقامی ہوٹل میں منعقد ہوئی جس سے خطاب کرتے ہوئے مقررین نے فیسٹول کو کراچی شہر کی شناخت اور نمائندہ اجتماع قرار دیا۔
تقریب سے خطاب کرتے ہوئے فیسٹول کے شریک بانی ڈاکٹر آصف فرخی نے کہا کہ ادبی میلہ مختلف ممالک کے ادیبوں اور شعرا کے لیے ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جس کے ذریعے انہیں اپنے خیالات اور نظریات دوسروں تک پہنچانے اور صحت مند مکالمے کا موقع ملتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ گزشتہ برسوں میں فیسٹول ایک میلے کی صورت اختیار کرگیا ہے اور شہر کی نمایاں ترین ادبی اور ثقافتی سرگرمی بن گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ا ب کراچی کی پہچان ٹارگٹ کلنگ اور بدامنی نہیں بلکہ کراچی لٹریچر فیسٹول ہے۔
افتتاحی تقریب سے بھارتی مصنفہ نین تارا سہگل اور معروف پاکستانی شاعرہ زہرہ نگاہ کے علاوہ امریکہ، فرانس، برطانیہ اور جرمنی کے سفارت کاروں نے بھی خطاب کیا۔
تقریب میں سال کی بہترین فکشن اور نان-فکشن کتابوں کے لیے ایوارڈز کا اعلان بھی کیا گیا۔
منتظمین کےمطابق سال کی بہترین فکشن کتاب کے لیے شندانا منہاس کے ناول اور بہترین نان فکشن کے ایوارڈ کے لیے ایم نعیم قریشی کی کتاب 'اوٹومان ترکی، اتاترک اینڈ مسلم ساؤتھ ایشیا' کا انتخاب کیا گیا ہے۔