پاکستان سمیت دنیا بھر میں انسانی حقوق کی پامالی کے خلاف کراچی پریس کلب میں ایک مشاعرے کا انعقاد ہوا جس کا اہتمام کلب کی ادبی کمیٹی اور ”فری عافیہ کیمپین“ کے تحت کیا گیا تھا۔ اس مشاعرے میں امریکی جیل میں قید پاکستانی خاتون ڈاکٹر عافیہ صدیقی اور دنیا بھر میں ظلم و زیادتی کا شکار ہونے والے افرا د کے لیے اہل قلم نے اپنا کلام پیش کیا۔
مشاعرے کی صدارت ملک کے نام ور شاعر امجد اسلام امجد نے کی۔ وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ہر قوم اور مذہب میں اچھے لوگ موجود ہیں جو انسانوں اور انسانیت کی عزت کرتے ہیں۔ممکن ہے وہ خاموش اکثریت ہوں لیکن موجود ہیں۔ جب ان تک اس طرح کا پیغام پہنچتا ہے تو وہ اس کا اثر لیتے ہیں ۔
اس سوال پر کہ اہل علم و دانش کی جانب سے انسانی حقوق بالخصوص ڈاکٹر عافیہ کے نام اس مشاعرے کا انعقاد عافیہ کی اسیری کے ایک طویل عرصے بعدکیوں کیاگیا ،امجد اسلام امجد نے کہا کہ ظلم و ستم کی روایت آدم کے زمانے سے چلی آرہی ہے اور ہر دور میں مختلف لوگوں نے ان کے خلاف ہر جگہ آواز اٹھائی ہے۔ بنیادی طور پر یہ انسانی حقوق کے لیے ہی آواز اٹھائی جارہی ہے اور عافیہ کا مسئلہ بھی اسی زمرے میں آتا ہے تو ان کا حوالے بھی اس میں شامل ہے ۔
شاعرہ عنبرین حفیظ نے اپنا کلام پیش کرتے ہوئے کہا کہ یہ پاکستان کی بیٹی عافیہ اور ہر اس عورت کے نام ہے جس نے نامساعد حالات کا سامنا بڑی جرات سے کیا۔
میں سر فراز ہوں تاریخ کے کرداروں میں
میں رہی شعلہ نوا شام کے درباروں میں
میں محبت کی علامت میں وفا کی تصویر
میں ہی چنوائی گئی قصر کی دیواروں میں
اجمل سراج نے محفل کی مناسبت سے اپنا لکھا گیا قطعہ سنایا۔
ہو نہ ہو ہم یہ سوچتے ہیں ضرور
ہم میں ایسا بھی ہے کوئی زندہ
نادہندہ جو عافیہ پر نہیں
جو نہیں عافیہ سے شرمندہ
مشاعرے میں موجود ڈاکٹر عافیہ کی بہن فوزیہ صدیقی نے کہا کہ یہ مشاعرہ دنیا کو یہ پیغام دے رہا ہے کہ اس قوم کے اہلِ قلم اور علم و دانش رکھنے والے افراد اب اٹھ کھڑے ہوئے ہیں جو قوم کو اور دنیا کو جگائیں گے اور” آپ کو معلوم ہے کہ جب اہلِ علم و قلم اٹھ کھڑے ہوں باقی لوگوں کے ساتھ تو انقلاب آتا ہے“۔یہ ایک بہتر تبدیلی کی جانب اشارہ ہے۔