کراچی —
نام: محمد بلال۔ ۔ ۔ والد کا نام : نامعلوم۔ ۔ ۔ ۔ والدہ کا نام: نامعلوم۔۔۔۔ یہ گمنام شناخت ہے کراچی کی سڑک پر رہنے والے 19 سالہ بلال کی جس کے پیدا ہوتے ہی کوئی نا معلوم شخص اُسے ایدھی کے جھولے میں ڈال گیا۔
دنیا میں آنے کے بعد اسکا بچپن اپنے ہی جیسے لاوارث بچوں کے ساتھ ایدھی کے فلاحی ادارے میں گزرا ۔ اس فلاحی ادارے نے اسے ایک نام تو دے دیا مگر شناخت وہ بھی نہیں دے سکا۔
19 سالہ بلال ان دنوں کراچی کی ایک مارکیٹ میں سموسے کی دکان میں کام کرتا ہے۔ ڈیوٹی ختم ہونے کے بعد شہر کی کسی بھی سڑک پر جاکر سو جاتا ہے۔ بلال کے پاس روزانہ کی اجرت والی نوکری تو ہے مگر نہ شناخت ۔ نہ سر پر چھت ہےاور نہ ہی اپنوں کا پیار۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بلال کا کہنا تھا کہ"ہم لاوارث بچوں کی زندگی کا سب سے بڑا دکھ شناخت سے محروم ہونا ہے۔ ہر پاکستانی کی طرح میرا بھی دل کرتا ہے کہ الیکشن والے دن ووٹ ڈالوں مگر میرا تو شناختی کارڈ بھی ابھی تک نہیں بنا"۔
بلال کا مزید کہنا ہے کہ "جب حکومت خواجہ سراؤں کو شناختی کارڈ جاری کر سکتی ہے اور ان کو سیاست میں حصہ لینے کا حق بھی دیتی ہے تو ہم لاوارثوں کا کوئی وارث کیوں نہیں؟ امید ہے کہ آنیوالی نئی حکومت ہم لاوارث بچوں اور نوجوانوں کی شناخت کے لیے کچھ کرے ورنہ گمنامی کی زندگی تو گزار رہے ہیں گمنام ہی مرجائیں گے"۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان کے مطابق ملک میں کل ووٹرز کی تعداد 8 کروڑ 61 لاکھ 89 ہزار جب کہ ملک کے نوجوان ووٹرز کی تعداد 60 فیصد کے لگ بھگ ہے مگر ملک میں 'بلال' جیسے ان گنت افراد ایسے ہیں جو پاکستانی شناختی کارڈ نہ ہونے کے باعث آئندہ
الیکشن میں ’ووٹ‘ کے حق سے بھی محروم ہیں۔
سابقہ حکومت کے اقتدار میں لاوارث بچوں کو شناخت دلانے کے معاملے پر صرف بیانات ہی جاری ہوسکے مگر عملی اقدام نہ ہو سکا۔ ایسے افراد قانونی حق سے بھی محروم ہیں ملک کا شہری ہونے کے باوجود انھیں پاکستانی کہلانے کا حق نہیں۔
بلال کی طرح ایسے ہی لاوارث بچے اورنوجوان ملک کے فلاحی اداروں اور شاہراہوں پر اپنی زندگی گزار رہے ہیں یہ افراد ملک سے اپنی پہچان اور شناخت چاہتے ہیں کہ کب انھیں شناخت ملے گی اور کروڑوں پاکستانیوں کی فہرست میں ان کا نام بھی درج ہوگا۔
دنیا میں آنے کے بعد اسکا بچپن اپنے ہی جیسے لاوارث بچوں کے ساتھ ایدھی کے فلاحی ادارے میں گزرا ۔ اس فلاحی ادارے نے اسے ایک نام تو دے دیا مگر شناخت وہ بھی نہیں دے سکا۔
19 سالہ بلال ان دنوں کراچی کی ایک مارکیٹ میں سموسے کی دکان میں کام کرتا ہے۔ ڈیوٹی ختم ہونے کے بعد شہر کی کسی بھی سڑک پر جاکر سو جاتا ہے۔ بلال کے پاس روزانہ کی اجرت والی نوکری تو ہے مگر نہ شناخت ۔ نہ سر پر چھت ہےاور نہ ہی اپنوں کا پیار۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بلال کا کہنا تھا کہ"ہم لاوارث بچوں کی زندگی کا سب سے بڑا دکھ شناخت سے محروم ہونا ہے۔ ہر پاکستانی کی طرح میرا بھی دل کرتا ہے کہ الیکشن والے دن ووٹ ڈالوں مگر میرا تو شناختی کارڈ بھی ابھی تک نہیں بنا"۔
بلال کا مزید کہنا ہے کہ "جب حکومت خواجہ سراؤں کو شناختی کارڈ جاری کر سکتی ہے اور ان کو سیاست میں حصہ لینے کا حق بھی دیتی ہے تو ہم لاوارثوں کا کوئی وارث کیوں نہیں؟ امید ہے کہ آنیوالی نئی حکومت ہم لاوارث بچوں اور نوجوانوں کی شناخت کے لیے کچھ کرے ورنہ گمنامی کی زندگی تو گزار رہے ہیں گمنام ہی مرجائیں گے"۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان کے مطابق ملک میں کل ووٹرز کی تعداد 8 کروڑ 61 لاکھ 89 ہزار جب کہ ملک کے نوجوان ووٹرز کی تعداد 60 فیصد کے لگ بھگ ہے مگر ملک میں 'بلال' جیسے ان گنت افراد ایسے ہیں جو پاکستانی شناختی کارڈ نہ ہونے کے باعث آئندہ
الیکشن میں ’ووٹ‘ کے حق سے بھی محروم ہیں۔
سابقہ حکومت کے اقتدار میں لاوارث بچوں کو شناخت دلانے کے معاملے پر صرف بیانات ہی جاری ہوسکے مگر عملی اقدام نہ ہو سکا۔ ایسے افراد قانونی حق سے بھی محروم ہیں ملک کا شہری ہونے کے باوجود انھیں پاکستانی کہلانے کا حق نہیں۔
بلال کی طرح ایسے ہی لاوارث بچے اورنوجوان ملک کے فلاحی اداروں اور شاہراہوں پر اپنی زندگی گزار رہے ہیں یہ افراد ملک سے اپنی پہچان اور شناخت چاہتے ہیں کہ کب انھیں شناخت ملے گی اور کروڑوں پاکستانیوں کی فہرست میں ان کا نام بھی درج ہوگا۔